Inquilab Logo

اگرمیں۲۰۰۱میں ملک کا وزیراعظم ہوتا توافغان جنگ میں امریکہ کی مدد کبھی نہ کرتا عمران خان اورر امریکہ

Updated: September 17, 2021, 9:08 AM IST | islamabad

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان برسوں پرانی دوستی میں دراڑ پیدا ہونے لگی ہے۔

Imran Khan during the interview (Photo: Agency)
عمران خان انٹرویو کے دوران ( تصویر: ایجنسی)

 افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان برسوں پرانی دوستی میں دراڑ پیدا ہونے لگی ہے۔ بلکہ گزشتہ دنوں امریکی وزیر خارجہ نے یہاں تک کہہ دیا  تھاکہ ’’ہم  پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات پر از سرنو غور کر رہے ہیں۔‘‘  اسی بیان کا جواب دیتے ہوئے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم امریکہ کو  ۲۰۰۶ء سے بار بار آگاہ کر رہے تھے کہ آپ افغانستان میں یہ جنگ ہا ر رہے ہیں لیکن امریکی حکام نے اس پر توجہ نہیں دی۔  اب وہ ہم پر الزام لگا رہے ہیں جبکہ ہم نے اس جنگ میں اپنے ۸۰؍ ہزار افراد کی جانیں گنوائی ہیں۔ عمران خان    نے سی این این کو دیئے گئے انٹرو میں یہ باتیں کہیں۔ 
  یہ پوچھے جانےپر کہ امریکہ یہ محسوس کرتا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں اس کی ویسی مدد نہیں کی جو طالبان کو شکست دینے کیلئے ضروری تھی، عمران خان نے کہا کہ  اس جنگ کی وجہ سے پاکستان کے ۸۰؍ ہزار افراد کو اپنی جان گنوانی پڑی ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی ۴۸۰؍ ڈرون  حملے  ہمارے ملک کے اندر کئے گئے۔ ۵۰؍ کے قریب دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کی دشمن ہو گئیں اور سرکاری تنصیبات پر حملے کرنے لگیں ۔ جنر ل پرویز مشرف پر خود کش حملہ ہوا اور بے نظیر بھٹو کا قتل کر دیا گیا۔ اس کے باوجود امریکی کہتے ہیں کہ ہم نے ان کی مدد نہیں کی؟ وہ کیا چاہتے تھے کہ ہم یہاں اپنے ملک میں دہشت گردوں سے بھی لڑیں اور افغانستان  جا کر طالبان کا بھی مقابلہ کریں؟
  عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ جنرل پرویز مشرف کا یہ فیصلہ بالکل غلط تھا۔ اگر میں ۲۰۰۱ء میں وزیراعظم ہوتا تو  ہر گز افغان جنگ میں  امریکہ کا ساتھ نہ دیتا۔   ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ یہی امریکہ تھا جس نے  سوویت یونین کے مقابلے میں جنگجوئوں کو کھڑا کیا تھا اور انہیں تربیت دے کر کہا تھا کہ جہاد ایک مقدس فریضہ ہے جائو لڑو۔ اس وقت ان جنگجوئوں کو ’مجاہدین ‘ کا نام دیا گیا تھا۔  ان میں طالبان بھی شامل تھے ، حقانی نیٹ ورک بھی تھا اور افغانستان کے دیگر گروپ بھی لیکن اب جبکہ امریکہ کو خود ان سے لڑنا پڑا تو وہ انہیں دہشت گرد کہہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا روسی فوج کے جانے کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی جبکہ امریکی فوج کے جانے کے بعد  افغانستان میں امن ہے۔ کوئی خون خرابہ نہیں ہوا ہے۔
 دونوں ممالک کے درمیان پڑنے والی دراڑ کا سبب کیا چین ہے ؟ اس سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ چین سے ہماری دوستی ۷۰؍ سال پرانی ہے۔ پاکستان ہی نے  ۱۹۷۰ء میں ہنری کسنجر سے چینی صدر کی  ملاقات کروائی تھی۔ امریکہ کے تعلقات سے  پاکستان اور چین کی دوستی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔  انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ طالبان کو ایک موقع دیا جائے ۔ وہاں دھیرے دھیرے امن واستحکام آئےگا۔ افغانستان میں خواتین کے حقوق کی تلفی کے تعلق سے پوچھے گئے سوال پر پاکستانی وزیراعظم نے کہا ’’ آپ باہر سے لاکر خواتین کے حقوق نہیں دے سکتے۔ افغان خواتین کو خود اپنے حقوق کی لڑائی لڑنی ہوگی۔ آپ انہیں تعلیم حاصل کرنے دیجئے ۔ جب افغان خواتین تعلیم یافتہ ہو جائیں گی تو خود ہی اپنے حقوق حاصل کر لیں گی۔ ‘‘ عمران خان نے زور دے کر کہا ’’ افغان عوام بہت مضبوط ہیں۔‘‘
  واضح رہے کہ امریکہ نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ  پاکستان طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرے جب تک کہ وہ عالمی برادری کے مطالبات کو پورا نہ کر دیں۔ امریکہ کو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا جھکائو اپنے حلیف یعنی امریکہ کے بجائے طالبان کی طرف زیادہ ہے۔ اس کی وجہ سے دونوں ممالک میں ان دنوں تلخی ہے۔ مذکورہ انٹرویو میں تمام وہی سوال پوچھے گئے تھے جو دراصل امریکہ کی جانب سے پاکستان حکومت پر الزامات تھے۔   

pakistan Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK