طالبان نے کہا کہ وہ اب بھی معاہدے کی شرائط پر قائم ہیں لیکن امریکہ کی معاہدہ شکنی پر ہونے والی جنگ کیلئےوہ ذمہ دار نہیں ہوں گے
EPAPER
Updated: March 30, 2021, 6:36 AM IST | Agency | Washington
طالبان نے کہا کہ وہ اب بھی معاہدے کی شرائط پر قائم ہیں لیکن امریکہ کی معاہدہ شکنی پر ہونے والی جنگ کیلئےوہ ذمہ دار نہیں ہوں گے
طالبان نے کہا ہے کہ اگر امریکہ اور نیٹو نے اپنی افواج معاہدے کے مطابق یکم مئی تک افغانستان سے نہ نکالیں تو وہ جنگ جاری رکھنے پر مجبور ہوں گے۔جنگجو گروہ کی یہ تنبیہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اس بیان کے بعد سامنے آئی ہے جس میںانہوں نےکہا تھا کہ افغانستان میں تعینا ت ڈھائی ہزار امریکی فوج کا یکم مئی تک واپس آنا مشکل ہے۔
وہائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی سے جب امریکی فوج کے انخلا سے متعلق جمعہ کو پوچھا گیا تھا تو انہوں نےکہاتھا کہ امریکی صدر اس سے متعلق ٹائم لائن پر ابھی بھی غور کر رہے ہیں۔ واشنگٹن میں سنیچر کو محکمہ خارجہ نے کہا کہ افغانستان کیلئے امریکی نمائندہ زلمے خلیل زاد ترکی کے دورے پر روانہ ہو چکے ہیں جس کے دوران وہ افغان جنگ کے خاتمے کیلئے مذاکرات کے عمل کو تیز کرنے پر زور دیں گے۔اس سے قبل اپنے بیان میں طالبان نے امریکی صدر کے فوجوں کے انخلا کے متعلق بیان کو مبہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کیلئے افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کیلئے دوحہ معاہدے پر عمل در آمد ہی سب سے دانش مندانہ راستہ ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ فوج کے انخلا سے متعلق معاہدے میں طے کردہ ڈیڈ لائن میں تاخیر کرتا ہے تو اسے معاہدے کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسی صورتِ حال میں وہ افغانستان کی آزادی کیلئے بین الاقوامی فورس کے خلاف پر تشدد کارروائیوں کو جاری رکھنے پر مجبور ہوں گے۔طالبان نے کہا ہے کہ جنگ کو طول دینے، ہلاکتوں اور تباہی کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہو گی جو معاہدے کی خلاف ورزی کریں گے۔جاری کردہ بیان میں طالبان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اب بھی معاہدے پر قائم ہیں۔
طالبان نے واشنگٹن کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ وہ جنگ کے حامیوں کے مشوروں کی وجہ سے اس تاریخی موقعے کو گنوا رہا ہے۔ تاہم انہوں نے اپنے بیان کی وضاحت نہ کی۔واضح رہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ میںہوئے معاہدے کے بعد طالبان نے امریکہ اور اس کی حلیف فورس کے خلاف حملے بند کر دیئے تھے اور اس کے بعد سے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں نہیں دیکھی گئیں۔
لیکن اس دوران امریکہ میں حکومت تبدیل ہوگئی اور ڈونالڈ ٹرمپ کی جگہ جو بائیڈن صدر بن گئے۔ بائیڈن نے اس معاہدے پر نظر ثانی کرنے اور افغانستان سے یکم مئی تک فوج واپس نہ بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ البتہ بائیڈن نے یہ ضرور کہا ہے کہ آئندہ سال امریکی فوج افغانستان میں نہیں ہوگی۔ فی الحال اس تعلق سے جلد ہی ترکی میں کانفرنس ہونے جا رہی ہے۔