Inquilab Logo

بہار کے۴۷؍اسمبلی حلقوں میں مسلم رائے دہندگان کی اہمیت

Updated: September 18, 2020, 11:29 AM IST | Jawed Akhtar | Patna

ریاست کے سیاسی حالات ۲۰۱۰ء کی طرح ہیں۔بہار کی ۲۹؍سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم آبادی ۲۰؍سے ۳۰؍فیصد ہے۔مجلس اتحادالمسلمین کی دستک سے عظیم اتحاد کی پریشانی میں اضافہ۔ مسلم ووٹ کیلئے نتیش کمار پرانے سا تھیوں کو منارہے ہیں

Nitish Kumar and Tejashwi Yadav - Pic : INN
نتیش کمار اور تیجسوی یادو ۔ آئی این ان

بہار کے۲۴۳؍ اسمبلی حلقے میں سے ۴۷؍ایسےاسمبلی انتخابی حلقے ہیں جہاںمسلم رائے دہندگان کا نہ صرف دبدبہ ہے بلکہ وہ ہار جیت بھی طے کرتے ہیں ۔ان سیٹوں پر مسلم آبادی ۲۰؍ سے ۴۰؍فیصد تک ہے ۔ بہار میں مسلم آبادی تقریباً ۱۶؍فیصد ہے اور یادو کی کل آبادی تقریباً ۱۲؍فیصد ہے ۔ اسی مائی (مسلم یادو) کی صف بندی پر لالو یادو اور رابڑی دیوی نے بہار میں ۱۵؍سال تک حکومت کی تھی ۔ایک بار پھر لالو یادو اسی ووٹ بینک  کے  سہارے دوبارہ اقتدار میں پانے کا منصوبہ  تیار کررہے ہیں لیکن  اس  صورتحال میں آرجےڈی کے لئے یہ راہ اتنی آسان نہیں ہے ۔ ۲۰۱۵ءکے اسمبلی انتخابات میں لالو یادو اور نتیش کمار ایک ساتھ تھے مگر بہار میں اس وقت کم و بیش ۲۰۱۰ ء اسمبلی انتخابات کے جیسے حالات ہیں ۔  جے ڈی یواور بی جے پی دونوںاقتدار میں ساتھ ہیں ۔ نتیش کمار آرجے ڈی لیڈر تیجسوی یادو کے مقابلے زیادہ مضبو ط دکھائی دے رہے ہیں ۔ ستم یہ ہے کہ اس بار سیاست کے چانکیہ سمجھے جانے والے آرجے ڈی سپریمو لالو پرساد بھی جیل میں ہیں ۔ تیجسوی یادوکے مقابلے نتیش کمار کا چہرہ  بڑا ہے ۔ نتیش کمار نے دلتوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی کو بھی اس اتحاد میں شامل کرلیاہے ۔ایل جے پی بھی اب تک این ڈی اے کا حصہ ہے ۔قابل غو ر بات یہ ہے کہ ۲۰۱۰ء کے اسمبلی انتخاب میں ایل جے پی  ،این ڈی اےکے ساتھ نہیں تھی ۔ اس کے باوجود ۴۰؍فیصد سے زیادہ مسلم آبادی والی۱۱؍اسمبلی سیٹوںمیں سے این ڈی اے نے ۵؍ سیٹیںحاصل کی تھیں ۔ان ۵؍سیٹوں میں سے ۴؍پر بی جے پی اور ایک پرجے ڈی یونے قبضہ کیاتھا ۔آر جے ڈی نےان میں سے صرف ایک سیٹ پر کامیابی حاصل کی جبکہ کانگریس ۲؍سیٹوں پرکامیاب  ہوئی ۔ ۳۰ ؍سے ۴۰؍فیصد والی مسلم آبادی والی اسمبلی سیٹوں میں سےاین ڈی اے نے ۶؍سیٹیں حاصل کی تھیں جن میں بی جے پی کو ۵؍جبکہ جے ڈی یو کو ایک سیٹ  ملی تھی ۔بہار کی ۲۹؍سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم آبادی ۲۰؍سے ۳۰؍فیصد ہے ۔ ان ۲۹؍ سیٹوں میں سے ۲۷؍سیٹوں پر این ڈی اے نے جیت درج  کی تھی ۔ آرجے ڈی کے حصے میں صرف ایک سیٹ آئی تھی ۔ ۲۰؍سے ۴۰؍فیصد آبادی والی ۴۷؍سیٹوں میں سے ۳۸؍سیٹوں پر این ڈی اے کامیاب ہوئی تھی ۔
سیمانچل پر این ڈی اے کی نظر 
 آل انڈیا مسلم مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم ) کے سیمانچل حلقے میں دستک دینے سے اس بار عظیم اتحاد اور قومی جمہوری اتحاد دونوں پریشان ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ۲۰۱۹ءکے ضمنی اسمبلی انتخاب میں ایم آئی ایم نے ایک سیٹ بھی حاصل کی ہے۔ ایم آئی ایم نے ۵۰؍اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیاہے جن میں سے ۳۲؍مسلم اکثریتی اضلاع ہیں ۔جن سیٹوں پر ایم آئی ایم نے  الیکشن لڑنے کافیصلہ کیاہے ان سیٹوں پر اس وقت عظیم اتحاد کاقبضہ ہے ۔ ان میں سے ۷؍سیٹوںپر آرجے ڈی ، دو پر کانگریس اور ایک پر سی پی آئی (ایم ایل )نے جیت حاصل کی ہے ۔ان سیٹوں پر سبھی مسلم اراکین اسمبلی ہیں ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ۲۰۱۵ ءکے اسمبلی انتخابات میں بھی ایم آئی ایم نے ۶؍سیٹوں پر  الیکشن لڑا تھا مگر اسے کسی سیٹ پر بھی کامیابی نہیں ملی تھی۔ ۲۰۱۹ءکےضمنی انتخاب میں ایم آئی ایم کو ایک سیٹ پر پہلی بار کامیابی ملی ۔اس کامیابی سےحوصلہ پاکر اسد الدین اویسی ۵۰؍سے زیادہ سیٹوں پر انتخاب لڑنے کی تیاری میں ہیں ۔ ایم آئی ایم کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ نقصان عظیم اتحاد کو ہونے کا اندیشہ ہے،یہی وجہ ہے کہ دونوں اتحادی پارٹیاں اس بار زیادہ پریشان ہیں ۔
پرانے ساتھیوں پر نتیش کمار کی نگاہ 
 ۲۰۱۵ءکےا سمبلی انتخاب میں کوسی اور سیمانچل کی تقریباً ایک درجن سیٹیں ایسی ہیں جن پر بی جے پی اور جے ڈی یو ہی نمبر ایک اور نمبر دو پر رہی ہے ۔ ان دونوں پارٹیوں کےمتحد ہونے کے بعد ان سیٹوں پر جیتنے کی امید زیادہ ہو سکتی ہے ۔جے ڈی یو نے یادو اور مسلم ووٹروں کو قائل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، اس کے لئے  مدھے پورہ اسمبلی سیٹ سے ممبر پارلیمنٹ تک کا سفر کرنے والےشرد یادو کو ایک بار پھر این ڈی میں شامل کرانے کیلئے نتیش کمار کی کوشش جاری ہے ۔۱۹۹۱ء ہی سے  شرد یادو کی کوسی علاقے میں سیاسی گرفت مضبوط  ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK