Inquilab Logo

صنعتکاروں کو بینک کھولنے کی اجازت

Updated: November 25, 2020, 9:14 AM IST | Agency | New Delhi

آر بی آئی کے تشکیل کردہ ورکنگ گروپ نے تجویز پیش کی کہ ملک کے بڑے صنعتی گھرانوں کو بینکوں میں شیئر کنٹرول کی اجازت دی جانی چاہئے ، ریزرو بینک کے سابق گورنر رگھو رام راجن اور سابق نائب گورنر ویرل اچاریہ نے اسے بینکنگ شعبے کیلئے خطرناک قرار دیا

Shaktikant Das
ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر شکتی کانت داس کی سربراہی میں آر بی آئی میںکئی حیرت انگیز فیصلے ہوئے ہیں

بینکنگ ریگولیٹر ریزرو بینک  آف انڈیا (آر بی آئی) کے تشکیل کردہ ورکنگ گروپ نے مشورہ دیا ہے کہ نجی شعبے کے بینکوں کی ملکیت  میں بڑے صنعتی گھرانوں کو  شیئرکنٹرول  کی  اجازت دی جانی چاہئے لیکن یہ صرف قرض کے مسئلے سے نمٹنے   کے ضوابط اور نگرانی کو مضبوط بنانے کے بعد ہی  ہونا چاہئے۔ اس تجویز نے پورے بینکنگ سیکٹر میں ہنگامہ برپا کردیا ہے کیوں کہ بڑے صنعتی گھرانوں کے بینکنگ سیکٹر میں داخل ہونے سے اس پورے سیکٹر کے خدو خال ہی تبدیل ہو جائیں گے اور ممکن ہے کہ چند ہی گھرانے پورےسیکٹر پر قبضہ کرلیں۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ذریعےکھاتہ داروں کے پیسےدیگر کاروبار میں استعمال کرنے کا راستہ بھی ہموار کیا جارہا ہےجو کافی خطرناک ہے۔ اس کی اجازت دئیے جانے سے صنعتی گھرانوں کیلئے پچھلے دروازے سے بینکنگ سیکٹر میں داخلے کی راہیں کھل سکتی ہیں۔   
 رپورٹ کے مطابق بڑے گروپ غیربینکنگ فائنانس کمپنیوں (این بی ایف سی) کو ایکوائر کرسکتے  ہیں جنھیں بینکوں میں تبدیل کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق کورونا کے بعد  مالیاتی نظام کو سرکاری اتھاریٹی سے چھین کر  امیروں کے ہاتھوں میں دیا جاسکتا ہے۔ قا بلِ غور ہے کہ ۹۰ءکی دہائی سے بینکنگ شعبہ میں سیاسی مداخلت  کی وجہ سے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا سلسلہ شروع کیا گیا اور تیز ی سے ترقی  کے نام پرآسان  شرائط پر  لون کی بند ر بانٹ شروع ہوگئی جس کی وجہ سے پرائیویٹ فائنانس کمپنیوں کا بھی جال بچھ گیا ۔ اس کے بعد کچھ ہی برسوں میں لون حاصل کرنے والی بیشتر   پرائیویٹ کمپنیاں  دیوالیہ ہوگئیں اور ان کے مالکان قرض ادا کرنے کے بجائے بیرون ممالک  فرار ہوگئے۔ ایسے کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ کس طرح پرائیویٹ اداروں کے ذریعے  عام آدمی کے پیسے ڈبو دیئےگئے۔
  اس معاملے میں ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے سابق گورنر رگھورام راجن اور سابق ڈپٹی گورنر ویرل آچاریہ کا کہنا ہے کہ حکومت اور مرکزی بینک نے بڑے صنعت کاروں کو بینک کھولنے کا لائسنس دیتے وقت ماہرین کی صلاح کو پوری طرح سے نظر انداز کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صنعتی گروپس کو بینکنگ شعبہ میں لانے کے لئے آر بی آئی نے جس انٹرنل ورکنگ گروپ کی تجویز کو منظوری دی ہے، اس میں  اقتصادیات کے متعدد ماہرین کی رائے اس کے  خلاف تھی۔  انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق رگھو رام راجن نے آر بی آئی کے اس قدم پر کہا ہے کہ وہ تمام ماہرین جو انٹرنل ورکنگ گروپ سے وابستہ تھے، ان میں سے ایک کو چھوڑ کر تمام کی رائے یہی تھی کہ بڑے صنعت کاروں کو بینک کھولنے کی اجازت نہیں دی جانی چا ہئے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ صنعت کاروں کے بینکنگ کے شعبہ میں آنے کے بعد قرض بڑھے گا  اور یہ کافی خطرناک ثابت ہوگا۔ راجن کے مطابق اس سے معاشی اور سیاسی قوتوں کا صنعتی گھرانوں کے مابین توازن گڑبڑاجائے گا۔
 خیال رہے کہ ورکنگ گروپ نے گزشتہ ہفتہ اپنی رپورٹ جاری کی تھی، جس میں صرف ایک کو چھوڑ کر تمام ماہرین کی رائے تھی کہ کارپوریٹ ہاؤسیز کو بینکنگ شعبہ میں آنے کی جازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اس گروپ کی قیادت کرنے والے پی کے موہنتی نے ماہرین کی طرف سے درج کرائے گئے اعتراضات کا ذکر تجویز میں کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ صنعتی گھرانے اپنے کاروبار کو غیر ضروری قرض دے سکتے  ہیں یا پھر قرض دینے کے معاملوں میں اپنے نزدیکی کاروباری ساتھیوں کی حمایت کر سکتے ہیں۔ تجو یز پر ماہرین نے کہا تھا کہ یہ صنعتی گھرانے تیزی سے اپنا کاروبار بڑھا رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ قرض لے کر املاک خرید سکتے ہیں۔ ایسا ہونے پر بینکنگ نظام کو بہت بڑا  خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ رگھورام راجن اور ویرل آچاریہ نے مشترکہ بیان جاری کر کے کہا ہے کہ جب صنعتی گھرانوں کو قرض درکار ہوگا تو وہ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے قائم  کئے گئے بینک سے قرض لے لیں گے۔ ماضی میں ایسے قرض کے تجربات بہتر نہیں ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کوئی بینک ایسے حالات میں معیاری قرض کس طرح فراہم کر سکتا ہے جبکہ اس کا کنٹرول قرض لینے والے کے ہاتھ میں  ہی ہے۔
 رگھو رام راجن جومودی سرکار کی معاشی پالیسیوں کے سخت ناقد ہیں ، انہوں نے واضح کیا کہ اگر صنعتکاروں کو ایسی کوئی بھی اجازت دی جاتی ہے تویہ بینکنگ نظام کو ختم کرنے کے مترادف ہوگا جبکہ ہندوستان کا بینکنگ سسٹم اس وقت کافی مضبوط ہے اور اسے مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے لیکن سرکار اس کے برعکس ایسے اقدامات کررہی ہے جس سے پورا سیکٹر ہی تباہ ہوجائے گا۔ یہ قدم سیکٹر کیلئے بہت خطرناک ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK