Inquilab Logo

عالمی عدالت انصاف نے غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی تشدد کی تحقیقات شروع کی

Updated: March 05, 2021, 11:52 AM IST | Agency | Washington

عالمی عدالت انصاف کی چیف پراسیکیوٹر فتائو بن سودانے فلسطین میں جنگی جرائم کی باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

ICC - Pic : INN
آئی سی سی ۔ تصویر : آئی این این

عالمی عدالت انصاف کی چیف پراسیکیوٹر  فتائو بن سودانے فلسطین میں جنگی جرائم کی باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔بن سودا کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں ۱۳؍ جون ۲۰۱۴ء سے لے کر اب تک کے اسرائیل کے زیر قبضہ غربِ اردن، مشرقی یروشلم اور غزہ  پٹی میں ہونے والے واقعات کا احاطہ کیا جائے گا۔گزشتہ ماہ دی ہیگ میں قائم عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ وہ فلسطینی علاقوں پر اپنا فوجداری دائرہِ اختیار بڑھا سکتی ہے۔ اسرائیل نے بن سودا کی تحقیقات کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے جبکہ فلسطین نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔عالمی عدالت انصاف (آئی سی سی) کو اختیار ہے کہ وہ نسل کُشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے خلاف معاہدہِ روم کے مطابق کارروائی کرے جنھیں اقوام متحدہ تسلیم کرتا ہے۔ اسرائیل نے کبھی بھی معاہدہِ روم کی توثیق نہیں کی لیکن اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے ۲۰۱۵ءمیں فلسطینیوں کے الحاق کی توثیق کر  دی تھی۔
 فتائو بن سودا نے کہا ہے کہ ’اصل توجہ زیادتیو ں کا شکار ہونے والوں  کے خلاف ہوئے جرائم پر ہونی چاہئے‘۔بدھ کو ایک بیان میں بن سودا نے کہا کہ ’جب بھی کسی ریاست کی کسی صورتحال کے تعلق سے تعین کر لیا جاتا ہے کہ تفتیش شروع کرنے کیلئے کوئی معقول بنیاد موجود ہے تو وہ (چیف پراسیکیوٹر) اس بات کا پابند ہے کہ اس معاملے پر تحقیق کا کام شروع کردے۔‘بن سودا نے کہا کہ انھوں نے ایک ’صبر آزما تحقیقاتی کام‘ کا آغاز کیا  جو تقریباً پانچ سال تک جاری رہا اور انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ اب یہ تفتیش آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور بغیر کسی خوف اور بغیر کسی کی حمایت میں، کی جائے گی۔انھوں نے کہا ’ہمارے پاس معاہدہِ روم کے تحت پیشہ ورانہ ایمانداری کے ساتھ اپنے قانونی فرائض کو پورا کرنے کے علاوہ اور کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔‘بن سودا نے بتایا کہ انھوں نے ۲۰۱۰ء میں غزہ جانے والے (فریڈم فلوٹیلا تین جہازوں سے ایک) ’ماوی مرمارا‘ پر ۱۰؍ ترک کارکنوں کے اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں قتل کئے جانے کے واقعے کی تحقیقات سے انکار کیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا تاہم موجودہ صورتحال میں پیش رفت کی ایک معقول بنیاد موجود ہے اور قابل قبول مواد بھی موجود ہے۔‘
 بن سودا نے  زور دیا کہ اس تحقیق میں بنیادی توجہ فلسطین اور اسرائیل دونوں جانب کے متاثرین پر ہونی چاہئے جو تشددکا شکار ہوئے ہیں اور جو سب کیلئے گہری اذیت اور مایوسی کا باعث بنا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ تحقیقات کے آغاز کا فیصلہ ’یہودیت  مخالف اور منافقت کا مظہر ہے‘ اور انھوں نے ان تحقیقات کے فیصلے کو واپس کروانے کی کوشش کا وعدہ کیا ہے۔انھوں نے خبردار کیا کہ ’آج اسرائیل پر حملہ کیا گیا ہے۔ یہودی عوام کے خلاف نازیوں کے ذریعہ ہونے والے مظالم کی تکرار کو روکنے کیلئے قائم کردہ عدالت اب یہودی عوام کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔‘فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے کہا کہ ’فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی قبضے کے رہنماؤں کی طرف سے کئے جانے والے جرائم جو ابھی بھی منظم اور بڑے پیمانے پر جاری ہیں۔ اس تحقیقات کا تقاضہ کرتے ہیں۔‘امریکہ کی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ اس فیصلے سے ’سنگین جرائم کے شکار اسرائیلی اور فلسطینی متاثرین کو انصاف کے حصول کی جانب ایک قدم بڑھانے کا مو قعہ ملا ہے جس سے انھیں طویل عرصے سے محروم رکھا گیا تھا۔‘
مبینہ جرائم جن کی تحقیقات کی جارہی ہیں؟
 غالباً بن سودا کے ابتدائی جائزے میں غزہ میں اسرائیلی تشدد اور مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر جیسے امور پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ فلسطینیوں نے معاہدہِ روم پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا ہے، تو اس طرح انھوں نے ۱۳؍ جون ۲۰۱۴ء  کے بعد ہونے والے جرائم کے مرتکبین کے خلاف قانونی کارروائی کیلئے آئی سی سی کے دائرہ اختیار کو تسلیم کیا ہے۔یہ غزہ میں اسرائیل اور فلسطینی کے درمیان  جنگ شروع ہونے سے ایک ماہ قبل کی بات ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK