Inquilab Logo

عالمی عدالت کا روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا حکم

Updated: January 24, 2020, 12:23 PM IST | Agency | The Hague

بالآخر عالمی عدالت برائے انصاف نے روہنگیا مسلمانوں پر ۲۰۱۷ء میں ہوئے مظالم کے تعلق سے دائر کردہ مقدمے کی سماعت پر رضا مندی ظاہر کی ہے اور عبوری طور پر یہ فیصلہ سنایا ہے کہ میانمار حکومت روہنگیا مسلمانوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

عالی عدالت ۔ تصویر : آئی این این
عالی عدالت ۔ تصویر : آئی این این

    ہیگ : بالآخر عالمی عدالت برائے انصاف نے روہنگیا مسلمانوں پر ۲۰۱۷ء میں ہوئے مظالم  کے تعلق سے دائر کردہ مقدمے کی سماعت پر رضامندی ظاہر کی ہے اور عبوری طور پر یہ فیصلہ سنایا ہے کہ میانمار حکومت   روہنگیا مسلمانوںکی حفاظت کو یقینی بنائے۔ واضح رہے کہ افریقی ملک گامبیا نےنیدر لینڈ میں واقع عالمی عدالت میں میانمار حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے  اور برمی فوج کے تشدد کا شکار روہنگیا مسلمانوں کو انصاف دلانے کی اپیل کی ہے۔  اس تعلق میانمار کی صدر آن سانگ سوچی بھی عالمی عدالت میں حاضر ہو چکی ہیں اور اپنی حکومت کا دفاع کر چکی ہیں۔ 
  جمعرات کوعالمی عدالت برائے انصاف کی ۱۷؍ ججوں پر مشتمل بینچ  نے  کہا کہ  ’’ عدالت یہ سمجھتی ہے کہ روہنگیا اقلیت خطرے میں ہے  ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ ‘‘   واضح رہے کہ عدالت اس معاملے کا حتمی فیصلہ نہیں سنایا ہے  بلکہ یہ مقدمہ مہینوں جاری رہ سکتا ہے جس میںگامبیا کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ میانمار میں واقعی روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے اور ان کی نسل کشی کی گئی ہے۔ البتہ عدالت نے ایک عبوری حکم صادر کیا ہے جس کی رو سے   میانمار حکومت کو اپنی مظلوم اقلیت کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ 
عالمی عدالت کے سرابراہ عبدالقوی یوسف نے  یہ عبوری فیصلہ پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ روہنگیا اقلیت  نسل کشی کے سنگین خطرات سے دوچار ہے اور میانمار حکومت کو  ان کی حفاظت کیلئے ہر ممکن اقدام کرنا ہوگا۔‘‘  ساتھ ہی عدالت نے میانمار حکومت کو ۴؍ مہینوں میں اس معاملے کی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت دی ہے۔ 
  عدالت نے کہا کہ  میانمار  میں لوگوں پر سیاسی اور فوجی پالیسیاں ہمیشہ  طاقت کے زور پر اور پر تشدد طریقے سے نافذ کی جاتی رہی ہیں۔  عبدالقوی یوسف نے جو فیصلہ پڑھ کر سنایا اس میں یہ بھی کہا گیا کہ ’’ میانمار نے بنگلہ دیش سے روہنگیا مسلمانوں کی اپنے وطن واپسی کے تعلق سے جن اقدامات کا دعویٰ کیا ہے وہ کافی نہیں ہیں۔‘‘  انہوں نے کہا کہ ’’ ہم جانتے ہیں کہ میانمار کے خلاف  دائر کردہ مقدمہ وہاں کے عوام کے خلاف نہیں بلکہ وہاں کی فوجی اور سیاسی طاقت کے خلاف ہے۔  واضح رہے کہ نومبر میں شروع ہوئے اس مقدمے میں آنگ سان  سوچی کی بھی پیشی ہوئی تھی۔ امن کا نوبیل انعام  حاصل کر چکیں سوچی نے عالمی عدالت کے سامنے کہا تھا کہ ’’ ممکن ہے کہ فوج یا پولیس کے تشدد میں کچھ شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہو لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ  میانمار میں اقلیتوں کی نسل کشی ہوئی ہے۔ لہٰذا اس معاملے کی عالمی عدالت میں سماعت نہیں ہونی چاہئے۔‘‘ 
  لیکن  جمعرات  کو سماعت کے دوران عدالت نے اس تعلق سے بھی تبصرہ کیا اور آنگ سان سوچی  کے موقف سے اختلاف ظاہر کرتے ہوئے اس معاملے کو عالمی عدالت میں قابل سماعت قرار دیا۔ ساتھ عدالت نے گامبیا کو   میانمار میں ہوئے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے تعلق سے ثبوت فراہم کرنے کی ہدایت دی اور مقدمے کی آگے کی کارروائی کی تیاری کرنے کا حکم سنایا۔  عدالت نےکہا کہ میانمار نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا سے متعلق ۱۹۴۸ء کی قرار داد کی دفعہ ۲؍کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے ایسے اقدامات اٹھائے جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی مخصوص نسل یا گروہ کے لوگوں کا قتل نہ ہو اور کسی گروہ کے افراد کو ذہنی یا جسمانی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ یہ پورا فیصلہ  عالمی عدالت کی بینچ نے متفقہ طور پر سنایا ہے یعنی بینچ کے تمام ۱۷؍ اراکین  کی رائے اس معاملے میں ایک ہی ہے۔ واضح  رہے کہ عالمی عدالت برائے انصاف کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ اس کے فیصلے کو کسی بھی دیگر عدالت یا اعلیٰ  ادارے میں  چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنے فیصلے کو نافذ کروانے کیلئے عالمی عدالت کے پاس کوئی راستہ یا قانون نہیں ہے۔
 کچھ عرضی گزار ابوبکر تمبو کے بارے میں 
  یاد رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں افریقی ملک گامبیا کے وزیر برائے  ابوبکر تمبو  نے میانمار کے خلاف عالمی عدالت میں عرضداشت داخل کی تھی اور گامبیا کی جانب سے اس پورے مقدمے کی نگرانی  ابوبکر تمبو ہی کر رہے ہیں۔ انہی کی کاوشوں کے سبب کبھی  عالمی امن کی علمبردار کہلانے والی آنگ سان سوچی کو عالمی عدالت میں حاضر ہونا پڑا تھا ۔  ابو بکر تمبو   روانڈا نسل کشی معاملے میں اقوام متحدہ کی جانب سے قائم کئے گئے ٹریبونل میں استغاثہ کے طور پر  اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔  اس قتل عام میں تقریباً ۸؍ لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK