Inquilab Logo

ایران:ڈھائی ماہ سے جاری مظاہروں کے بعد’اخلاقی پولیس‘ ختم

Updated: December 05, 2022, 9:41 AM IST | Tehran

محمود احمدی نژاد کے دور میں قائم ’گشت ارشاد‘ نامی پولیس دستہ کوایران کے اٹارنی جنرل نے ختم کرنے کا اعلان کیا

Moral police officers used to act like this (file photo)
اخلاقی پولیس کے اہلکاراس طرح کارروائی کیا کرتے تھے(فائل فوٹو)

 ایران نے اپنی اخلاقی پولیس ’گشتِ ارشاد‘ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایرانی ذرائع ابلاغ نےاتوار کے روزبتایا کہ ملک میں نافذالعمل سخت ضابطہ لباس کی خلاف ورزی کے الزام میں مہساامینی کی گرفتاری اورپھرپولیس کے زیر حراست موت کے ردعمل میں گزشتہ ڈھائی ماہ سے زیادہ عرصےسےمظاہرے جاری ہیں اور ان کے دباؤ کے بعد اخلاقی پولیس کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ایران کے اٹارنی جنرل محمدجعفرمنتظری کا کہنا ہےکہ ’’اخلاقیات پولیس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں اوراسے ختم کردیا گیا ہے۔‘‘ذرائع ابلاغ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کا یہ تبصرہ ایک مذہبی کانفرنس میں سامنے آیا جہاں انھوں نےشرکاء میں سے ایک کےاس سوال کا جواب دیا تھا’’اخلاقیات پولیس کوکیوں ختم کیاجارہا ہے۔‘‘اخلاقی پولیس کورسمی طور پرگشت ارشاد یا ’گائیڈنس پٹرول‘کے نام سے جاناجاتا ہے،اس کو سابق صدرمحموداحمدی نژاد کے دور میں قائم کیا گیا تھا۔اس کا مقصد’’شرم وحیا اور حجاب کی ثقافت کو پھیلانااورضابطہ لباس کی پابندی کرانا تھا۔اس کا مقصدلازمی طورپرخواتین کا سر ڈھانپنا ہے۔ان یونٹوں نے  ۲۰۰۶ء میں شہروں میں گشت کا عمل شروع کیا تھا۔
 محکمہ گشت ارشادکےخاتمے کا اعلان منتظری کے اس بیان کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے جس میں انھوں نےکہاتھاکہ ’’پارلیمان اورعدلیہ دونوں ہی اس معاملے پرکام کررہے ہیں کہ آیا خواتین کو سر ڈھانپنے کی اجازت دینےوالے قانون کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔‘‘ صدر ابراہیم رئیسی نے سنیچر کے روز ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران کی جمہوری اوراسلامی بنیادیں آئینی طورپرمضبوط ہیں لیکن آئین کےنفاذکے ایسے طریقے موجود ہیں جو لچکدارہوسکتے ہیں۔
 واضح رہے کہ ایران میں خواتین کے لیے حجاب ۱۹۷۹ءکے انقلاب کے چارسال بعد لازمی قراردیا تھا۔اس انقلاب میں امریکی حمایت یافتہ بادشاہت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اورآیت اللہ روح اللہ خمینی کے زیرقیادت اسلامی جمہوریہ ایران کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
 اخلاقیات کے پولیس افسروں نے ۱۵؍ سال قبل کریک ڈاؤن اورخواتین کوگرفتارکرنے سے پہلے ابتدائی طورپر انتباہ جاری کیا تھا۔اس کے دستے عام طورپرسبز وردی میں مردوں اورسیاہ چادروں میں ملبوس خواتین پرمشتمل ہوتے تھے، ایسے لباس جو ان کے سروں اور اوپری جسموں کو ڈھانپتے تھے۔واضح رہے کہ ایران میں لباس کے  ضابطےبھی بتدریج تبدیل ہوئےہیں۔ خاص طورپرسابق اعتدال پسند صدر حسن روحانی کے دور میں اس تبدیلی کے بعد خواتین کو ڈھیلے ڈھالے لباس،رنگین اسکارف کے ساتھ تنگ جینزمیں دیکھنا عام سی بات بن گئی تھی۔لیکن اس سال جولائی میں ان کے جانشین، انتہائی قدامت پسند صدر ابراہیم رئیسی نے’’حجاب کے قانون کو نافذ کرنے کیلئےتمام ریاستی اداروں کو متحرک کرنے‘‘ پرزوردیا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK