Inquilab Logo

جموں وکشمیرمیں۵؍ اگست۲۰۱۹ء کےفیصلوں کی منسوخی تک غیریقینی صورتحال کاخاتمہ ناممکن

Updated: January 22, 2021, 12:00 PM IST | Agency | Srinagar

جموں و کشمیر میں۵؍ اگست۲۰۱۹ء کے فیصلوں کی منسوخی تک غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ناممکن ہے، نیشنل کانفرنس کاسخت اظہار ِتشویش

Ali Mohammad Sagar. Picture :INN
علی محمد ساگر۔ تصویر:آئی این این

نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر نے جموں و کشمیر کے مبینہ تباہ کن اقتصادی حالات، لوگوں کی معاشی بدحالی، انتظامی انتشار، سیاسی خلفشار اور نہ ختم ہونے والی غیر یقینی صورتحال پر زبردست تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ دگرگوں صورتحال۵؍ اگست ۲۰۱۹ءکے `غیرجمہوری اور غیر آئینی فیصلے کی دین ہے۔  علی محمد ساگرنےیہ باتیں جمعرات کو یہاں پارٹی ہیڈکوارٹرز پر سینئرپارٹی لیڈران شمالی زون صدر محمد اکبر لون (رکن پارلیمنٹ ) ، وسطی زون صدر علی محمد ڈار، قیصر جمشید لون، ایڈوکیٹ شوکت احمد میر اور دیگر عہدیداران کے ساتھ تبادلہ خیالات کرتے ہوئے کہیں۔انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کے لوگ مسلسل بے چینی اور پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ یہاں سیاحت، دستکاری اور صنعت و حرفت کے شعبے ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔ کلیدی شعبوں سے وابستہ لوگ نان شبینہ کے محتاج بن گئے ہیں یا بننے کے قریب ہیں، بے کاری اور بے روزگاری اور نامساعد حالات نے نوجوانوں کو مایوس کر کے رکھ دیا ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ جموں وکشمیر کو حاصل خصوصی مراعات کی بحالی تک یہاں حالات پٹری پر آنے کی کوئی امید نہیں ہے۔علی محمد ساگر نے کہا کہ نئی دہلی کو جموں و کشمیر اور لداخ کی زمینی صورتحال کا جائزہ لینا چاہئے۔ تینوں خطوں کے عوام نے مرکزی حکومت کے فیصلوں کو مسترد کر دیا ہے اور لوگ ان فیصلوں پر نالاں ہیں۔ مرکز کو چاہئے کہ وہ زمینی حقائق کو قبول کر کے یہاں کے عوام کے احساسات، جذبات اور امنگوں کے عین مطابق۵؍ اگست۲۰۱۹ء  کے فیصلوں کو واپس لے۔این سی جنرل سیکریٹری نے کہا کہ نیشنل کانفرنس یہاں کے عوام کے احساس، جذبات اور امنگوں کی ترجمانی کرتی رہے گی اور ہر حال میں جموں وکشمیر کی انفرادیت، اجتماعیت اور شناخت کی بحالی کے لئے جدوجہد کرتی رہے گی اور پارٹی اس کے لئے کوئی بھی قربانی دینے کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے پارٹی سے وابستہ لیڈران، عہدیداران اور کارکنان پر زور دیا کہ وہ لوگوں کے ساتھ تال میل قائم رکھیں  اور ان کی مشکلات کا ازالہ کرنے میں اپنا رول نبھاتے رہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK