Inquilab Logo

مخالف آوازوں کو دبانے کیلئے دہشت گردی مخالف قوانین کا استعمال غلط ہے

Updated: July 14, 2021, 7:51 AM IST | New Delhi

جسٹس چندر چڈ کا انتباہ، عدالتوں کو بھی یاد دہانی کرائی کہ شہریوں کے آزادی کے حق کے تحفظ کیلئے انہیں ’پہلے دفاعی محاذ ‘کے طور پر اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے

Justice DY chandrachud warns judges that their decisions affect the system from withinPicturePTI
جسٹس ڈی وائی چندر چڈ نے ججوں کو متنبہ کیا کہ ان کے فیصلے سسٹم کو بہت اندر سے متاثر کرتے ہیں تصویرپی ٹی آئی

 حکومت  کے خلاف آواز بلند کرنےوالوں کی آواز دبانے کیلئے انہیں یو اے پی اے جیسے سخت قوانین کے تحت جیل میں ڈال دینے کے الزامات کے بیچ سپریم کورٹ کے سینئر جج، جسٹس چندر چڈ نے متنبہ کیا ہے کہ مخالف آوازوں کو دبانے کیلئے دہشت گردی مخالف قوانین یا ضابطہ فوجداری کے تحت سخت قوانین کا استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔اس کے ساتھ ہی انہوں  نے اس ضمن میں عدالتوں کی ذمہ داری کا بھی حوالہ دیا اور زور دے کر کہا ہے کہ شہریوں کی  آزادی کے تحفظ کیلئےکورٹ کو ’’پہلے دفاعی محاذ‘‘ کے طور پر کام کرنا چاہئے۔ 
  وہ ہندوستان اور ا مریکہ کے درمیان قانونی  محاذ پر تال میل کے پروگرام  ’انڈو  -یوایس جوائنٹ سمر کانفرنس ‘‘ سے خطاب کررہے تھے۔ پیر کی شام ہونے والے اس  پروگرام میں سپریم کورٹ کے جج نے زور دیا کہ کوئی بھی قانون  شہریوں کو ہراساں  یا ان کی آزادی چھیننے کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ جسٹس چندر چڈ  کے مطابق ’’ضابطہ فوجداری کے تحت آنے والے قوانین جن میں  دہشت گردی مخالف قوانین بھی شامل ہیں، کا استعمال مخالف آوازوں کو دبانے اور شہریوں کو ہراساں کرنے کیلئے  استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ ‘‘ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ ’’میں نے ارنب گوسوامی  بنام ریاست مہاراشٹر کیس میں اپنے فیصلے میں نشاندہی کی ہے کہ ہماری عدالتوں کو یہ بات یقینی بنانی چاہئے کہ وہ شہریوں کی آزادی سے محرومی کے خلاف پہلی دفاعی لائن کے طور پر کام کریں۔‘‘
 جسٹس چندر چڈ نے  ججوں کی ذمہ داریوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی شہری کو ایک دن کیلئے بھی اس کی آزادی سے محروم کیا جاتا ہے تو یہ بہت زیادہ ہے اور ججوں کو دھیان رکھنا چاہئے کہ ان کے فیصلے سسٹم کو بہت اندر تک متاثر کرتے ہیں۔ جسٹس چندر چڈ جنہیں انسانی اور شہری حقوق کے علمبردار کے طور پر دیکھا جاتا ہے، نے یہ باتیں ایسے وقت میں کہی ہیں جب یو اے پی اے کے تحت ماخوذ کئےگئے ۸۴؍ سالہ فادر اسٹین سوامی  نے ضمانت نہ ملنے کی وجہ سے قید  میں دوران علاج دم توڑ دیا ہے۔ان کی موت کی وجہ سے ہندوستان کو عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔  الزام ہے کہ فادر اسٹین سوامی پر لگائے گئے دہشت گردی اور ماؤ نوازوں سے تعلق کے الزامات جھوٹ پر مبنی تھے۔

ان کے علاوہ یو  اے پی اے کےتحت کئی دیگر معاملات میں سالہاسال جیل میں گزارنے کے بعد ملزمین کے عدالتوں سے بری ہونے کے واقعات نے بھی اس قانون کے غلط استعمال کے الزامات کو تقویت بخشی ہے۔تازہ ترین معاملہ آسام کے سماجی کارکن اکھل گوگوئی کا ہے جنہیں ۱۷؍ ماہ جیل میں رہنے کے بعد چارج شیٹ داخل کرنے کے موقع پر ہی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے ڈسچارج کردیا کہ ان کے خلاف کوئی کیس نہیں ہے۔ گزشتہ ماہ نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا اور آصف اقبال تنہا کو ضمانت پر رہا کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے بھی یو اےپی اے کے بے جا استعمال پر سخت تنقید کی تھی۔اسی طرح کے ایک اور کیس میں دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کئے گئے ایک کشمیری شخص کو ۱۱؍ سال بعدعدالت نے بری کیا۔ امریکن بار اسوسی ایشن اور سوسائٹی آف انڈین لافرمس کے ذریعہ منعقد کئے گئے اس پروگرام میں  سپریم کورٹ  کے دائرۂ اختیار اوراس کی ذمہ داریوں کا بھی تذکرہ کیا  گیا اور مثالوں کے ذریعے بتایا کہ سپریم کورٹ اپنی ذمہ داریوںکو کس طرح نبھا رہاہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK