۳۴؍ سالہ جاوید نے بیوی کے زیور بیچے، آٹو میں آکسیجن کا سلنڈر نصب کروایا، بنیادی دواؤں کا نظم کیا اور اب بلا اُجرت مریضوں کوا سپتال پہنچارہے ہیں
EPAPER
Updated: May 01, 2021, 9:58 AM IST | Bhopal
۳۴؍ سالہ جاوید نے بیوی کے زیور بیچے، آٹو میں آکسیجن کا سلنڈر نصب کروایا، بنیادی دواؤں کا نظم کیا اور اب بلا اُجرت مریضوں کوا سپتال پہنچارہے ہیں
بھوپال کے رہنے والے جاوید خان نے اپنے آٹو رکشا میں آکسیجن کا باٹلا نصب کرکے اس کوعارضی طور پر ایمبولنس میں تبدیل کرلیا ہے تاکہ کورونا کے قہر کے اس دور میں ضرورت مندوں کو مفت اسپتال پہنچا سکیں۔ ۳۴؍ سالہ جاوید کوئی لکھ پتی نہیں ہیں ، نہ ان کے پاس اتنے پیسے تھے کہ وہ اپنے آٹو کو آسانی سے عارضی ایمبولنس میں تبدیل کرسکتے مگر ان سے کورونا کے قہر کے دوران ضرورت مندوں کی پریشانی دیکھی نہیں گئی۔ اس لئے انہوں نے اپنی بیوی کے زیورات بیچ کر اپنے آٹو رکشا کو ایمبولنس میں تبدیل کرنے کافیصلہ کیا۔ جاوید خان بتاتے ہیں کہ ’’میں نے سوشل میڈیا اور نیوزچینلوں پر دیکھا کہ ایمبولنس کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو اسپتال پہنچانے میں لوگوں کو کیسی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ تو میں نے سوچا کہ کچھ کرنا چاہئے۔‘‘ یومیہ ۲۰۰؍ سے ۳۰۰؍ روپے کمالینے والے جاوید نے اپنے آٹو میں آکسیجن کا ایک سلنڈر اور مریض کو آکسیجن کے پہنچانے کے آلات نصب کرلئے ہیں۔ وہ کورونا سے متاثرہ مریضوں کو بلا اُجرت اسپتال پہنچاتے ہیں۔
جاوید کے مطابق’’میں ۱۸؍ سال سے آٹو چلا رہاہوں۔ حالانکہ میرے گھر میں کسی کو کورونا نہیں ہوا ہے مگر لوگوں کو پریشان دیکھ کر میں ان کیلئے کچھ کرنا چاہتا تھا۔ انہوں نے بتایاکہ آٹو میں آکسیجن کا سلنڈر نصب کرنے کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے سینی ٹائزر اور فوری ضرورت کی دواؤں کا بھی نظم کیا ہے۔ ۔ جاوید کے مطابق لوگوں کو یوں پریشان دیکھ کر وہ خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے تھے۔ ان کے مطابق ’’اس کیلئے میں نے اپنی بیوی کے زیورات بیچ دیئے۔ ایک ری فل سینٹر کے باہر لائن لگاکر آکسیجن کا سلنڈر حاصل کرتا ہوں۔ سوشل میڈیا پر میرا فون نمبر دستیاب ہے۔ایمبولنس نہ ملنے پر ضرورت مند مجھے فون کرسکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اطمینان کااظہار کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اب تک ۸؍ سے ۹؍ انتہائی نازک مریضوں کو بحفاظت اسپتال پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
جاوید کو ہر روز آکسیجن کا سلنڈر ری فل کروانے کیلئے ۶۰۰؍ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ آکسیجن کے حصول میں صرف پیسے ہی خرچ نہیں ہوتے بلکہ اس کیلئے یومیہ ۴۰؍ سے ۴۵؍ منٹ قطار میں بھی جاتے ہیں۔ جاوید نے اب عام مسافروں کو بٹھانا بند کردیا ہے تاکہ پورا وقت کورونا کے مریضوں کو دے سکیں۔ان کی ’آٹو ایمبولنس سروس‘ کی معلومات چونکہ سوشل میڈیا پرن کے موبائل نمبر کے ساتھ گشت کررہی ہے اس لئے جاوید کو روزانہ مدد کیلئے فون آتے ہیں۔ دیگرآٹو ڈرائیورس کو بھی اپنے ساتھ آنے کی دعوت دیتے ہوئے جاوید نے بتایا کہ ’’مجھے روزانہ کافی فون آتے ہیں۔‘‘ ٹائمز آف انڈیا کے اس سوال پر کہ وہ کب تک یہ خدمات انجام دیتے رہیںگے، ۳۴؍ سالہ نوجوان کا جواب تھا کہ ’’لوگوں کی مدد کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ا گر مجھے اس کام کو جاری رکھنے کیلئے کسی سے قرض لینا پڑا تو بھی میں پیچھے نہیں ہٹوںگا۔ سریکھا پربھاولکر جن کے شوہر کو جاوید نے اپنے آٹو میں اسپتال پہنچایا ہے، نے بتایا کہ ’’وہ ہمارے لئے کسی فرشتہ کی طرح ہیں۔ ۲۶؍ اپریل کوکورونا سے متاثر اپنے شوہر کو اسپتال داخل کرنے کیلئے میں ایمبولنس کے حصول کیلئے دردر کی ٹھوکریں کھارہی تھی۔ کہیں ایمبولنس دستیاب نہیں تھی۔ ہم نے جاید بھائی کی مدد لی۔ بیڈ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں کئی اسپتالوں کے چکر کاٹنے پڑے مگر جاوید بھائی نے ہم سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔‘‘