Inquilab Logo

کابل: سنگین جرائم میں ملوث ۴۰۰؍طالبان کو بھی رہا کردیا جائے گا

Updated: August 10, 2020, 8:12 AM IST | Agency | Kabul

لویا جرگہ میں فیصلہ،بدلے میںطالبان فوری طور پرجنگ بندی اور امن مذاکرات شروع کرنے کے پابند،امریکہ کو اپنے فوجی نکالنے میں آسانی ہوگی

Ashraf Ghani - Pic : INN
اشرف غنی ۔ تصویر : آئی این این

اتوار کو افغان لویہ جرگے کے اختتام پر پشتو اور فارسی میں متفقہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا گیا جس میں فوری طور پر سیز فائر اور امن مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ مندوبین نے زیر حراست سنگین جرائم میں ملوث طالبان کے۴۰۰؍کےقریب قیدیوں کو رہا کرنے کی منظوری دی۔ ان میں کئی جنگجو افغان سکیوریٹی اور غیر ملکی فورسیزپرمتعدد حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ ڈیڑھ سو سے زائد قیدی ایسے ہیں جن کو سزائے موت سنائی جا چکی تھی۔
 افغان قومی مصالحتی ہائی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کے مطابق قیدیوں کی رہائی پر اتفاق سے امن مذاکرات کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا،’’اب ہم امن مذاکرات کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔‘‘
 طالبان نے کہہ رکھا تھا کہ ان کے قیدیوں کی رہائی مکمل ہونے کے ساتھ ہی وہ فوری طور پر مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہیں، جس میں اولین نقطہ جنگ بندی کی شرائط طے کرنا ہوگا۔
امریکی دباؤ
  جرگےکے آغاز سے پہلے بعض افغان مندوبین کی جانب سےطالبان قیدیوں کی رہائی پر سخت اعتراضات ظاہرکیےگئےتھے۔ انسانی حقوق کی کارکن بلقیس روشن نے ایک بینر اٹھایا تھا جس پر درج تھا کہ،’’طالبان کو معافی دینا قوم کے ساتھ غداری ہوگی۔‘‘تاہم امریکہ کا افغان حکومت پردباؤ تھا کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد اور بہتر مستقبل کے لیے یہ کڑوی گولی نگلنے کے لیے تیار رہیں۔
 جرگے کے فیصلے سے امریکہ کیلئےافغانستان سے اپنےمزید فوجی نکالنے میں آسانی پیدا ہوگی۔  افغانستان میں آج بھی امریکہ کے۸۵۰۰؍فوجی موجود ہیں۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی خواہش ہےکہ نومبر کے صدارتی الیکشن سےپہلے ان فوجیوں کی خاطر خواہ تعداد واپس لائی جائے۔ ۴؍ سال پہلے یہ ان کا انتخابی وعدہ تھا جس میں اِس وقت کسی پیش رفت سے انہیں نومبر کے صدارتی الیکشن میں کافی مدد مل سکتی ہے۔
امن مذاکرات کی امید
 افغان حکومت کے طالبان کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کی فی الحال کوئی تاریخ طے نہیں لیکن امکان ہے کہ یہ بات چیت آئندہ ہفتے دوحہ قطر میں ہو سکتی ہے۔طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان امن معاہدہ رواں برس فروری میں طےپایا تھا۔ ڈیل کے تحت افغان حکومت کو طالبان کے ۵؍ ہزارقیدی اور طالبان کو اپنی تحویل سے حکومت کے ایک ہزارقیدی رہا کرنے تھے۔
 کابل میں صدر اشرف غنی کی حکومت نےپہلے اس سمجھوتےپرسخت اعتراض کیا لیکن بعد میں بیشتر طالبان قیدی رہاکردیے ماسوائے ۴۰۰؍کے،جو حکومت کے مطابق سنگین جرائم میں ملوث تھے۔اتوار کو جرگے کے اختتام پرسابق صدر حامد کرزئی نے کہا کہ مذاکرات میں صبر درکار ہوتا ہے اور اس میں وقت لگتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں طالبان سے کہتا ہوں کہ اب آپ لڑائی بند کردیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK