Inquilab Logo

کلیان:۳؍ ہزار سے زائدجنگی ٹوپیوں اور پگڑیوں کا میوزیم

Updated: April 16, 2022, 8:22 AM IST | ajaz Abdul Ghani

اننت جوشی نے اپنے گھر کو میوزیم میں تبدیل کیاہے۔ ۳۵؍ سال کے دوران ۷؍ ممالک کا سفر کر کے ٹوپیاں جمع کیں

Anant Joshi showing off the war hats in his museum.
اننت جوشی اپنے میوزیم میں موجودجنگی ٹوپیاں دکھاتے ہوئے۔ (تصویر: انقلاب)

  مشہور کہاو ت ہے ’سر سلامت تو پگڑی ہزار‘ لیکن شہرکے ایک شخص کی  پگڑ یوں اور ٹوپیوں سے متعلق دیوانگی کو دیکھ کر کہنا پڑ رہا ہے کہ’ سر سلامت  اور پگڑی تین ہزار‘۔  اننت جوشی نامی تاجر کو مختلف ملکوں کی ٹوپیاں اور پگڑیاں جمع کر نے کاشوق ہے۔ انہوں نے دنیا بھر کی تقریباً ۳؍ ہزار سے زائد جنگی ٹوپیاں اور پگڑیاں جمع کر کے اپنے پرانے مکان کو ہی میوزیم بنا ڈالا ہے۔
  کلیان ریلوے اسٹیشن سے نزدیک رہنے والے اننت جوشی گزشتہ ۳۵؍ سال سے اپنی روز مرہ کی مصروف ترین زند گی سے تھوڑا وقت نکال کر ٹوپیاں جمع کررہے ہیں۔ اپنے پرا نے مکان کو انہوں نے ایک چھوٹے سے میوزیم میں تبدیل کردیا ہے جہاں الگ الگ ملکوں کی ٹوپیاں ، ہیلمٹ اور پگڑیاں رکھی ہو ئی ہیں۔ ۱۷؍ سال کی عمر میں اننت جوشی اچانک بہت بیمار پڑ گئے تھے۔  اُس وقت دور درشن پر مہا بھارت سیریل کی کافی دھوم تھی۔ مہا بھارت سیر یل میں مختلف کرداروں کے سروں پر سجی ٹوپیوں سے اننت جوشی بہت متاثر ہوئے اور انہیں ٹوپیاں اور پگڑیاں جمع کر نے کا خیال آیا۔جنگی ٹو پیوں اور پگڑیوں سے متعلق معلومات حاصل کر نے کے بعد ان کا تجسس مزید بڑ ھتا گیا اور انہوںنے مختلف ملکوں کی دورانِ جنگ استعمال ہو نے والی ٹوپیوں کو جمع کر نے کا فیصلہ کیا ۔ جوشی نے اپنے چھوٹے سے میوزیم کو ’ شِیر بھوشن‘ نام دیا ہے۔ ہندوستان پر حکومت کر نے والے مغلوں، مراہٹوں،  راجپوتوں کے دور کی جنگی ٹوپیاں انہوں نے اپنے میوزیم میں سجا کر رکھی ہیں، وہیںبر طانیہ ، جر منی، اٹلی ، آسٹریلیا، چین اور روس جیسے ملکوں میں دورانِ جنگ استعمال ہو نے والی ٹوپیاں اور ہیلمٹ بھی جمع کئے ہیں۔ ان کے خزانہ میں سب سے قدیم ۱۶؍ ویں صدی میں افغانستان میں دھات سے بنی ہو ئی جنگی ٹو پی بھی شامل ہے۔  
 اننت جوشی کے مطابق ۱۷؍ سال کی عمر سے انہوں نے ٹوپیاں جمع کر نے کیلئے ملک کی مختلف ریاستوں  اور ۵؍ تا ۷؍ ملکوں کا سفر بھی کیا اور وہاں سے ٹوپیاں  لائیں۔ اس دوران انہوں نے ہزاروں  لوگوں سے ملاقات بھی کی۔ انہوں نے افسوس سے بتایا کہ ۲۰۰۵ء کے سیلاب میں ۲۰۰؍ سے زائد ٹوپیاں اور پگڑیاں پانی میں بھیگ کر خراب ہو گئی تھیں۔ لمکا بک آف ریکارڈ اور انڈیا بک نے جوشی کے ریکارڈ کو درج کر لیا ہے جبکہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے بھی ان کے کام کو تسلیم کیا ہے۔

kalyan Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK