Inquilab Logo

منموہن سنگھ کی مودی کو نصیحت، بولنے سے پہلے سوچ لیا کریں

Updated: June 23, 2020, 1:07 PM IST | Agency | New Delhi

چین سے متعلق سرحدی تنازع پر محتاط بیان دینے کا مشورہ دیتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہاکہ اس نازک دور میں ایسے الفاظ کے استعمال سے گریز کیا جانا چاہئے جس سے ملک کی سلامتی اور سالمیت متاثر ہو اور چین کے سازشی رُخ کو مضبوطی ملے۔ بی جے پی برہم، منموہن سنگھ کے دورِ حکومت پرسنگین الزامات عائد کئے

Manmohan Singh and Narendra Modi - Pic : INN
منموہن سنگھ اور نریندر مودی ۔ تصویر : آئی این این

سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے وزیراعظم نریندر مودی کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ بولنے سے قبل اچھی طرح سوچ لیا کریں تاکہ بعد میں بیان کی وضاحت کی ضرورت نہ پیش آئے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے چین سے متعلق سرحدی  تنازع معاملے پر محتاط بیان دینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ اس نازک دور میں ایسے الفاظ کے استعمال سے گریز کیا جانا چاہئے جس سے ملک کی سلامتی اور سالمیت متاثر ہو اور چین کے سازشی رخ کو مضبوطی ملے۔اس مشورے  پر بی جے پی برا مان گئی۔ اس نے یوپی اے کے دور حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ منموہن سنگھ نے جنگ کئے بغیر ایک بڑا خطہ چین کے حوالے کردیا تھا۔
 ڈاکٹر منموہن سنگھ نے پیر کو یہاں جاری ایک بیان میں کہا کہ’’کہ ملک تاریخ کے نازک موڑ پر ہے،ایسے میں حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی اور جو اقدامات اٹھائے گی، اس سے ملک کا مستقبل طے ہوگا۔ اس صورتحال میں ، کس کے کندھوں پر ملک کی قیادت ہے ، ان کندھوں پر فرض کی ایک گہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمارے نظام میں ، یہ ذمہ داری ملک کے وزیر اعظم کی ہے اور جو بھی فیصلہ وہ کریں گے وہ مستقبل کا رخ طے کرے گا۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’وزیر اعظم کو اپنے سلامتی اور اسٹریٹجک اور ارضیاتی مفادات پر اثرانداز ہونے والے اثرات کے حوالے سے اپنے الفاظ اور اعلانات سے ہمیشہ بہت محتاط رہنا چاہئے۔
 سابق وزیراعظم نے کہا کہ  وزیر اعظم کو اپنے بیان سے ان کے سازشی رخ کو مضبوطی نہیں دینی چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ حکومت کے تمام اعضا اس خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے باہمی معاہدے پر کام کریں اور صورتحال کو مزید سنگین ہونے سے روکیں۔ ‘‘ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا کہ حکومت کو فیصلہ کرنا ہے کہ ملک کس سمت میں جائے گا اور ایسی صورتحال میں وزیر اعظم کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے ، لہٰذا بہت سوچ سمجھ کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں وزیر اعظم اور مرکزی حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ حالات کے چیلنجوں کا مقابلہ کریں اور کرنل بی سنتوش بابو اور ہمارے فوجیوں کی قربانی کے امتحان پر کھرے اتریں، جنہوں نے قومی سلامتی اور اپنی علاقائی سالمیت کیلئے اپنی جانیں قربان کیں۔ اس سے کچھ بھی کم ملک کے ساتھ  تاریخی غداری ہوگی۔
 ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ ’’ہم حکومت کو متنبہ کریں گے کہ گمراہ کن پروپیگنڈہ کبھی بھی سفارت کاری اور مضبوط قیادت کا متبادل نہیں ہوسکتا ہے۔اس کے ذریعہ پھیلائے گئے جھوٹ کے پروپیگنڈے سے حق کو دبایا نہیں جاسکتا۔ ‘‘انہوں نے کہا کہ ملک کے جوانوں نے چین کی سرحد پربڑی قربانی دی ہے،اسلئے ہم اپنے بیٹوں کے مقروض ہیں۔ اپنے بہادر فوجیوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہ جانےکیلئے ، ہمیں ہر دراندازی کا کرارا جواب دینا ہوگا اور سازشیوں کے دباؤ اور دھمکیوں کے سامنے جھکنا نہیں ہے۔ پورے ملک کو متحد ہوکر اس چیلنج کا جواب دینا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ملک کے ۲۰؍ بہادر فوجیوں نے۱۶۔۱۵؍ جون کو لداخ کی وادی گلوان میں زبردست قربانی دی۔ ان بہادر سپاہیوں نے ہمت کے ساتھ اپنا فرض نبھایا اور ملک کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ملک کے ان بیٹوں نے اپنی آخری سانس تک مادر وطن کی حفاظت کی۔ اس عظیم قربانی کیلئے ہم ان جرأت مند فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کے شکرگزار ہیں ، لیکن ان کی قربانی رائیگاں نہیں جانی چاہئے۔سابق وزیر اعظم نے کہاکہ ’’چین نے اپریل کے بعد سے متعدد بار وادی گلوان اور پیانگونگ تس جھیل میں ہندوستانی سرحد میں زبردستی دراندازی کی ہے۔ ہم نہ تو ان کے خطرات اور دباؤ کے سامنے جھکیں گے اور نہ ہی اپنی ارضیاتی سالمیت کے ساتھ کسی سمجھوتہ کو قبول کریں گے۔ یہ وہ وقت ہے جب پوری قوم کو متحد ہوکر منظم ہوکر اس جرت کا جواب دینا ہوگا۔‘‘
 ڈاکٹر منموہن سنگھ کے اس مشورے پر بی جے پی برامان گئی۔ اس نے الزام عائد کیا کہ منموہن سنگھ کے دور میں چین نے کافی دراندازی کی تھی اور تب اُس وقت کی حکومت نے کچھ نہیں کیا تھا۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا نے کہا کہ ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۳ء کے درمیان چین نے ۶۰۰؍ مرتبہ گھس پیٹھ کی۔ بی جے پی نے اتنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ۱۹۶۲ء کے ہند چین جنگ کے حوالے سے  موجودہ حالات کا جواز پیدا کرنے کی کوشش بھی کی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK