اترپردیش اسمبلی انتخابات ۲۰۲۲ء کیلئے آر ایس ایس اور بی جے پی قیادت رام مندر جیسے جذباتی موضوعات کو بھنانے کے حق میں،
بی جے پی اعلیٰ کمان منصوبہ بنارہی ہےکہ انتخابی مہم کی شروعات حکومت کی حصولیابیوں سے کی جائیگی مگر خاتمہ مذہبی و جذباتی کارڈ پر کیاجائے گا
بی جےپی اور آر ایس ایس کا خیال ہےکہ ان کے یوگی اور مودی برانڈ میں زنگ لگ گیا ہےجسے پھر چمکانا ضروری ہے تصویر آئی این این
بی جے پی اتر پردیش کے اپنے مشن ۲۰۲۲ءکے لئے پھر وہی پرانا فارمولہ یعنی مذہبی کارڈ کھیلنے جارہی ہے۔اپنے اقتدار کو بچانے کےلئے اسے اپنی مرکزی و ریاستی حکومتوں کی حصولیابیوں سے زیادہ ’بھگوان رام‘ پر بھروسہ ہے،اسی لئے رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کا کریڈٹ خود کو دیتے ہوئے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کا منظم منصوبہ بھی بنا یاجارہا ہے۔اس کے لئے پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور اس کی نظریہ ساز تنظیم آر ایس ایس بھی اشارہ دے چکی ہے۔
مغربی بنگال الیکشن میں تمام ہتھکنڈے اپنانے کے باوجود شکست سے دو چار ہوئی بی جے پی اب یوپی انتخابات کے تئیں بیحد ہوشیاری سے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔اس شکست نے اسے اہم الیکشن میںناقابل شکست رہنےوالی پارٹی کے دعوے کو بھی چکنا چور کردیا ہے۔حالانکہ، ہندوتوا کارڈ کھیلتے ہوئے پارٹی نے جذباتی ایشوز اچھالنے کی بھر پور کوشش کی تھی مگر کبھی نہ ہار ماننے والی ’شیرنی‘ ممتا بنرجی مودی۔شاہ جوڑی ہی نہیں اس کے درجنوں مرکزی وزراء اور پوری آر ایس ایس تھنک ٹینک پر بھاری پڑیں۔اب بھگوا پارٹی کو یہ ڈر ہے کہ کورونا وبا نے مودی و یوگی کی شبیہ کو جو دھچکا دیا ہے اس سے اس کی راہ مزید مشکل ہوگئی ہے اور یوپی کو بچانے کے لئے اسے ایک بار پھر ’بھگوان رام‘ کی ’شرن‘ میں ہی جانا پڑے گا۔پارٹی کےایک سینئر لیڈرکا کہنا ہے کہ رام مندر اور ہندوتوا کارڈ ہمارے لئے ہمیشہ سے کار گرانتخابی ہتھیار رہا ہے،تو آگے اسے چھوڑ دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب یہ ایشوز عوام کے سامنے ہوتے ہیں تو انہیں حکومت کی حصولیابیوں، ناکامیوں سے کوئی مطلب نہیں رہ جاتااوروہ اپنے ووٹ کا فیصلہ اسی بنیاد پر کافی حد تک کرتے ہیں۔
بی جے پی پر نظر رکھنے والے ایک سینئر جرنلسٹ کہتے ہیں کہ یہ پارٹی ہندوتوا کارڈ سے ہٹ کر کچھ سوچ ہی نہیں سکتی کیونکہ مودی جیسا لیڈر بھی اسی کارڈ کے دم پر’ ناقابل شکست ‘ بنے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ ۲۰؍ سال کی انتخابی مہم کا جائزہ لے لیجئے اور بتائیے کہ کیاکوئی بھی ایسا انتخاب ہوا ہے جس میں مودی اور بی جے پی کا فوکس ہندوتوا سے زیادہ کسی اور ایشو پر رہا ہو۔
بی جے پی کےباوثوق ذرائع بتاتے ہیں کہ مشن ۲۲ءکی حکمت عملی بالکل نئی ہوگی۔انتخابی مہم کی شروعات مرکزی و ریاستی حکومتوں کی حصولیابیوں اور کارکردگیوں سے کی جائے گی مگر جیسے جیسے الیکشن مہم رفتار پکڑے گی بھگوان رام، رام مندر، کاشی، متھرا،یہ تمام اہم ایشوز بنتے جائیں گے۔ذرائع نےیہ بھی اشارہ دیا ہے کہ یوپی میں جلد ہی ’ایودھیا تو صرف جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے‘مہم شروع کی جائے گی ، جو براہ راست بھلے ہی بی جے پی شروع نہ کرے مگر بالواسطہ تو یہ ہمارے انتخابی مہم کا ہی حصہ ہوگی۔
ادھر،بی جے پی اور آر ایس ایس کی اعلیٰ قیادت اس بات سے متفکر ہے کہ ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کا آئندہ اسمبلی الیکشن کہیں ان کے لئے کرو یا مرو کے مترادف نہ ہوجائے۔انہیں یہ فکر لاحق ہے کہ یوپی میں شکست کا واضح پیغام اور اثر ۲۰۲۴ء کےپارلیمانی انتخابات پر ہوگاکیوںکہ یہ ہار صرف یوگی کی نہیں بلکہ مودی اور آ ر ایس ایس کی بھی مانی جائے گی۔در اصل،پارٹی اور آرا یس ایس میں کئی دن سے اس مسئلے پر غور ہورہا ہے کہ کورونا وبا کے سبب ’برانڈ مودی اور یوگی‘ میں جو زنگ لگ گیا ہے اسے پھر سے کیسے چمکایا جائے۔ان کا ماننا ہے کہ جب تک یہ دو نوں برانڈ پہلے کی طرح نہیں چمکتے پارٹی کی انتخابی نیّا کا پار لگنا مشکل ہے۔
یوپی کو ہر حال میں بچانے کےلئےجاری مغز پاشی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پارٹی کی اچھی کارکردگی اسے راجیہ سبھا میں مزید مضبوط بننے میں مددگار ثابت ہوگی کیونکہ ابھی بھی ایوان بالا میں بی جے پی اکثریت سے کافی دور ہے۔اس وجہ سے وہ اپنے کئی ایجنڈ وں کو جن سےبالخصوص ملک کے سیکولر کردار پر آنچ آئے گی، کھل کر نافذ نہیں کر پارہی ہے۔