دہلی ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے ملزم کو رہا کرنے کا حکم دیا کہ ’’ایک ڈاکٹر کی طرح عدالتوں کی ذمہ داری شہریوں کے آئینی حقوق کو ختم ہونے سے بچانا ہے۔‘‘
EPAPER
Updated: October 07, 2021, 8:14 AM IST | new Delhi
دہلی ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے ملزم کو رہا کرنے کا حکم دیا کہ ’’ایک ڈاکٹر کی طرح عدالتوں کی ذمہ داری شہریوں کے آئینی حقوق کو ختم ہونے سے بچانا ہے۔‘‘
۲۰۰۸ء میں دہلی میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار کئے گئے نوجوان محمد حکیم کو۱۲؍ سال کی قید کے بعد دہلی ہائی کوٹ نے بدھ کو یہ کہتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا کہ عدالتوں کی ذمہ داری ایک ڈاکٹر کی طرح آئینی حقوق کو پامال ہونے سےبچانے کی ہے۔ جسٹس انوپ جے بھمبانی اور جسٹس سدھارت مردُل نے محمد حکیم کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’کورٹ کو پس از مرگ اسباب کا پتہ لگانے والوں کی طرح حقوق پامال ہوجانے کے بعد جائزہ لینے کے بجائے کسی ڈاکٹر کی طرح حقوق کے ختم ہونے سے پہلے انہیں بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘
فروری ۲۰۰۹ء میں گرفتار ہونےو الے محمد حکیم کوضمانت پر رہا کرنے کا حکم سناتے ہوئے کورٹ نے کہا ہے کہ ’’پولیس کو ایسے حقوق کے پامال ہونے یا انہیں دفن کردیئے جانے سے قبل متحرک رول ادا کرنا چاہئے۔ اگر یہ ذمہ داری متاثرہ شخص کی ہے کہ وہ اپنے حقوق کیلئے چوکس رہے تو یقینی طور پر عدالتوں کو بھی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔سپریم کورٹ کی زبان میں کہیں تو جب معاملہ آئینی اور قانونی حقوق کا ہوتو عدالتوں کو پہرے دار کا کردار نبھانا چاہئے۔‘‘
محمد حکیم نے ضمانت کی عرضی خارج کرنے کے سیشن کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں داخل کی گئی پٹیشن میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اس معاملے کے کل ۱۶؍ ملزمین ہیں جن میں سے ان پر جو الزام لگایاگیا وہ اتنا ہے کہ وہ سائیکل کے چند بال بیئرنگ لکھنؤ سے دہلی لائے تھے جنہیں مبینہ طور پر بم بنانے میں استعمال کیاگیاتھا۔ کورٹ کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرائی گئی کہ جس وقت حکیم کو گرفتار کیاگیا وہ صاف ستھری شبیہ کاحامل یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک نوجوان تھا۔
ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے سرکاری وکیل نے زور دیا کہ مذکورہ دھماکوں میں ۲۶؍ افراد ہلاک اور ۱۳۵؍ زخمی ہوئے تھے اور انڈین مجاہدین نامی تنظیم نے ان کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ حکومت نےضمانت نہ کی مخالفت کرتے ہوئے یہ دلیل بھی دی کہ تلاشی کے دوران بٹلہ ہاؤس کے گھر سے بال بیئرنگ اور اشتعال انگیز مواد برآمد کیاگیاتھا۔ مگر کورٹ نے ان دلائل کو مستردکردیا اور کہا کہ ’’چونکہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتاکہ عرضی گزار ایک ایسے الزام کی ایک دہائی سے زائد سزا بھگت چکا ہے جو اب تک ثابت بھی نہیں ہوا۔‘‘ کورٹ نے مزید کہا کہ اس موقع پر کورٹ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ حکومت عرضی گزار کیلئے سزائے موت کا مطالبہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے،اس لئے وہ اس بات کا مستحق ہے کہ ’’زیرسماعت قیدی کی حیثیت سے ۱۲؍ سال کی طویل قید گزار نے کے بعد اسے اس کی آزادی لوٹا دی جائے۔‘‘اس کے ساتھ ہی عدالت نے معاملے کی تیز رفتار شنوائی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔