Inquilab Logo

ممبرا :آمدنی سے زیادہ رقم کا انکم سرٹیفکیٹ ملنے سے غریب شہریوں میں ناراضگی

Updated: September 25, 2021, 7:37 AM IST | Iqbal Ansari | Mumbai

لاک ڈاؤن کے سبب بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ کئی لوگ تواسکول فیس ادا نہ کرنے کے سبب بچوں کو آن لائن پڑھانا بھی بند کر دیا ہے ۔ ایسے حالات میں غریب خصوصاً بیوہ اور سنگین بیماریوں میں مبتلا افراد شدید پریشان ہیں اوروہ اقلیتی طلبہ کو مالی مدددینے کیلئے حکومت کی پری میٹرک اسکالر شپ کا فارم پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں

Forms are being filled in the camp for income certificate.Picture:Inquilab
انکم سرٹیفکیٹ کیلئے منعقدہ کیمپ میں فارم پُرکئے جارہے ہیں۔ تصویر انقلاب

ممبرا:  لاک ڈاؤن کے سبب بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ کئی لوگ تواسکول فیس ادا نہ کرنے کے سبب بچوں کو آن لائن پڑھانا بھی بند کر دیا ہے ۔ ایسے حالات میں غریب خصوصاً بیوہ اور سنگین بیماریوں میں مبتلا افراد شدید پریشان ہیں اوروہ اقلیتی طلبہ کو مالی مدددینے کیلئے حکومت کی  پری میٹرک اسکالر شپ کا فارم پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں ان کی آمدنی سے زیادہ رقم کا انکم سرٹیفکیٹ جاری کیا جارہا ہے جس سے ان کی پریشانیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ایسی غریب خواتین جو  گھر وں میں کام کاج کرتی ہیں، عربی پڑھا کراپنی اور بچوں کی کفالت کر رہی ہیں  یا وہ خواتین جو شوہر سے علاحدگی اختیار کرکے گھر میں سلائی کرتی ہیں اوران کی سالانہ آمدنی ۵۰؍ تا ۷۰؍ ہزارروپے ہیں لیکن انہیں بھی  ایک لاکھ روپے او راس سے زیادہ آمدنی کا انکم سرٹیفکیٹ جاری کیا جارہا ہے جس سےان کے بچے پری میٹرک اسکالر شپ سے محروم ہو رہے ہیں۔گزشتہ دنوں انقلاب نے چند ایسی خواتین سے بات چیت کی جنہیں ان مسائل سے سامنا کرناپڑرہا ہے۔
  جمعرات کو ممبرا کے رکن اسمبلی کے آفس( ایم ایل اے آفس، واقع دوست اپارٹمنٹ، نزد تنور نگر، کوسہ) میں مفت انکم سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کیلئے منعقدہ کیمپ میں موجود ایک بیوہ نے بتایا کہ ’’ میرے ۲؍ بچے ہیں۔ گھر میں سلائی کر کے مَیں اپنے بچوں کی بڑی مشکل سے کفالت کر رہی ہوں۔ ایک اورخاتون نے بتایاکہ ان کے شوہر ایم ایل اے آفس (تنور نگر) کے بازو میں واقع گیس ایجنسی میں سلنڈر ڈیلیوری  کا کام کررہے ہیں ۔ وہ واحد کفالت کرنے والے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوںکا  پری میٹرک اسکالر شپ کا فارم پُر کرنا ہے اسی لئے ہم انکم سرٹیفکیٹ بنانے آئے ہیں۔ شوہر کو ماہانہ ۵؍ ہزار تا ساڑھے ۵؍ ہزارروپے تنخواہ ملتی ہے ۔  اسی اعتبار سے ہم نے سالانہ آمدنی ۷۰؍ ہزار روپے بتائی لیکن انکم سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے افسر نے ایک لاکھ روپے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے جو ہماری اصل آمدنی سے ہزاروں روپے زیادہ ہے۔ ایک تو یہ غلط سرٹیفکیٹ ہے اور دوسرا اس سرٹیفکیٹ سے ہمارے بچوں کو اسکالر شپ نہیں مل سکے گی کیونکہ پری میٹرک اسکالر شپ کیلئے سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپے سے کم ہونا چاہئے اورترجیح ان بچوں کو دی جاتی ہے جن کی آمدنی کم سے کم ہو۔  اس طرح آمدنی سے زیادہ رقم کا انکم سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے ہمارا کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی ہوگا۔‘‘
 قطار میں کھڑی ایک لڑکی نے بتایا کہ ’’میری  والدہ بیوہ ہے اور دوسروںکے گھروں کا کام کر کے ،  رشتہ داروں اور اہل خیر حضرات کے تعاون سے ہماری کفالت کر رہی ہے۔ ہماری  سالانہ آمدنی ۵۰؍ ہزار روپے ہیں ۔ ہم نے فارم میں ۳؍ گواہوں کے آدھار کارڈ بھی دیئے ہیں،  اس کے باوجود ہمیں ایک لاکھ ۳؍ ہزارروپے کا سرٹیفکیٹ جاری کیاجارہا ہے جس سے ہم اسکالر شپ کے اہل نہیں رہ جائیں گے ۔ ‘‘ اسی طرح ایک اور طالبہ جس کا دعویٰ تھا کہ اس کے خاندان کی آمدنی ۷۰؍ ہزار روپے ہیں ، اسے بھی ایک لاکھ  روپے کا انکم سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا تھا۔ 
 رشید کمپاؤنڈ میں رہنے والی   غزالہ شیخ بھی ایسے  افراد میں شامل ہیںجنہیں  آمدنی سے زیادہ رقم کا سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا ہے۔  وہ اپنے شرابی شوہر سے عاجز آکر علاحدہ رہ رہی ہیں اور گھر گھر جاکربچوں کو عربی پڑھاتی  ہیں جس سےملنے والے ہدیے اورتعاون سے ۲؍بچوں( بیٹی اور بیٹے)کی کفالت کر رہی ہیں۔‘‘ انہوں نےبتایا کہ ’’ مَیں ۱۵؍ بچوں کو ان کے گھر جاکر عربی پڑھاتی ہوں جس کے عوض مجھے فی کس ۳۰۰؍ روپے کے حساب سے ماہانہ ۴۵۰۰؍ روپے اور اسی اعتبار سے سالانہ ۵۴؍ ہزار روپے ہدیہ ملتا ہے ۔میرے بچوں کو پری میٹرک اسکالر شپ ملتی تھی لیکن اسے جاری رکھنے کیلئےگزشتہ برس اسکول نے مقامی ایجوکیشن آفیسر کی ہدایت پرانکم سرٹیفکیٹ کا مطالبہ کیاتھا۔اسی لئے مَیں نے کھرڈی  گاؤں کے پاس ایک آفس سے انکم سرٹیفکیٹ کی درخواست کی۔اس سے مَیں نے بتایا کہ مَیں عربی پڑھاکر بچوں کی کفالت کرتی ہوں لیکن وہاں سے مجھے بتایا گیا کہ ہم ۱۵۰۰؍  روپے فیس لے کر ۹۸؍ ہزار یا ایک لاکھ روپے کا ہی سرٹیفکیٹ بنوا سکتے ہیں کیونکہ اس سے کم آمدنی کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جارہا ہے۔(یاد رہے کہ انکم سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی سرکاری فیس ۳۴؍ تا ۴۰؍ روپے  ہیں)۔ بحالت مجبور میں نےکسی طرح روپے کا انتظام کیا اور آمدنی سے زیادہ کا سرٹیفکیٹ بنواکر اسکول میں جمع کیا۔ ‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’ چونکہ رواں تعلیمی سال کی اسکول  فیس( بیٹی کیلئے ۴۹۰۰؍روپے اور بیٹے کیلئے ۴۹۰۰؍ روپے) ادا نہیں کرپائی ہوں اسی لئے بچوں کو آن لائن پڑھائی میں شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ جب فیس کا انتظام ہوگا تب ان کی پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوگا۔‘‘ واضح رہے کہ مفت انکم سرٹیفکیٹ جاری کرنے کیلئے منعقدہ اس خصوصی کیمپ میں درخواست کے ساتھ ، آدھار، ۳؍مہینے کا لائٹ بل کا زیراکس،  ایک سال کا بینک اسٹیٹمنٹ، ۳؍ پڑوسیوں کے آدھارکارڈ کے ساتھ گواہی،پراپرٹی ٹیکس کی رسیداور فارم میں تصدیق نامہ جیسے دستاویز شامل تھے۔  
  اس سلسلے  میںانکم سرٹیفکیٹ کیلئے کیمپ منعقد کرنے والے این سی پی ممبرا کلوا اسمبلی حلقہ کے صدر شمیم خان کے آفس میں ممبرا کے تلاٹھی اور تحصیلدار آفس کے افسران کے ساتھ میٹنگ میں درخواست کی گئی تھی کہ ممبرا کے غریب طلبہ جن میں اکثریت پری میٹرک اسکالر شپ کے لئے درخواست دیتی ہیں، کو اسکالر شپ مل سکے اور لاک ڈاؤن کے حالات میں غریب بچے اپنی تعلیم جاری رکھ سکے ، اس کیلئے خصوصی طور پر بیوہ  اور مریضوںکو کم سے کم دستاویز کی بنیاد پر درخواست کے مطابق آمدنی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے۔
 شمیم خان نے تحصیلدار آفس کے اہلکاروں سے وزیرہاؤسنگ  اور ممبرا کلوا کے رکن اسمبلی جتیندر اوہاڑ سے فون پر بات بھی کروائی تھی۔
  شمیم خان نے تحصیلدار اور تلاٹھی سے مطالبہ کیا کہ جس طرح اورنگ آباد، بھیونڈی اور دیگر تعلقوں میں محض ۳؍ دستاویز ( حلف نامہ، آدھار اور عرضی یا الیکشن کارڈ، آدھار کارڈ اور عرضی)پر انکم سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے اسی طرز پر ممبرا میں بھی یہ سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے۔
 تحصیلدار آفس کے ایک افسر نے عذر پیش کیا تھا کہ حکومت کے جی 


آر کے مطابق دستاویز لئے جارہے ہیں لیکن جب انہیں اورنگ آباد تحصیلدار کا جاری کردہ ۴۵؍ ہزار روپے کا انکم سرٹیفکیٹ بتایا گیا اور وہ بھی  محض ۳؍ دستاویز کی بنیاد پر تو وہ گول مول باتیں کرنے لگے۔
 اس ضمن میں ممبر اکے تلاٹھی وشوناتھ راتھوڑ سے  استفسار کرنے پر انہوںنے بتایا کہ’’دیگر تعلقوں کے تحصیلدار کی جانب سے جو انکم سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے، اس میں دی گئی معلومات اگر غلط ہوئی تو اس کے لئے عرضی گزار کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے جبکہ ممبرا تلاٹھی کی جانب سے جو انکم سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے  ،اس میں ذمہ دار تلاٹھی کو قرار دیا جاتا ہے اورمعلومات غلط ہونے پر تلاٹھی کی نوکری بھی جاسکتی ہے، اسی لئے جب اوسط آمدنی سے کوئی شہری انکم سرٹیفکیٹ کیلئے درخواست دیتا ہےتو اس کی تصدیق ہونے کے بعد ہی اسے سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں تحصیلدار نے بھی تصدیق کرنے کی ہدایت دی ہے۔ جہاں تک بیوہ کو ایک لاکھ ۳؍ ہزار روپے کا انکم سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی بات ہے تو انہوں نے شوہر کی موت کا سرٹیفکیٹ منسلک نہیں کیا تھا  اسی لئے ان کی آمدنی اوسطاً کر کے سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا ۔‘‘انہوںنے مزید بتایا کہ ’’شہری علاقوں میںاوسطاً آمدنی ۹۸؍ ہزار یا ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہی ہوتی ہے اسی لئے چند واقعی غریبوں کو چھوڑ کراس سے کم کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے پر ہماری نوکری بھی جاسکتی ہے اور یہ خطرہ ہم مول نہیں لے سکتے۔ ہم نے مستحق افراد کو اوسط سے کم آمدنی کا بھی سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے۔‘‘ جب کم آمدنی والی خواتین کو۹۸؍ ہزار، ایک لاکھ اور ایک لاکھ ۳؍ ہزار روپے کا انکم سرٹیفکیٹ  جاری کرنے  کی نشاندہی کی گئی اور کیمپ میں موجود  این سی پی کے لیڈروں سے شکایت کی گئی تو انہوں نےتلاٹھی سے صحیح آمدنی کے مطابق سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا یقین دلایا ۔
  ایک افسر نے جواز پیش کیا کہ جو لوگ ۵۰؍ تا ۶۰؍روپے آمدنی دکھاتے ہیں ، ان کا لائٹ بل اور مکان کا کرایہ جوڑی جائے اور ان کے کھاتے میں رقم دیکھے تو وہ اس رقم سے زیادہ ہوتی ہے تو ایسے حالات میں عرضی کے مطابق سرٹیفکیٹ کیسے جاری کیا جاسکتا ہے۔ 
 ایک مقامی سوشل ورکر نے کہا کہ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کئی بیمار اور غریبوں کو ان کے رشتہ دار مدد کرتے ہیں اور کفالت بھی کرتے ہیں۔کچھ کا معاملہ تو ایسا ہے کہ لاک ڈاؤ ن سے پہلے وہ کسی امداد کے طلب گار نہیں تھے لیکن اب وہ بے روزگار ،پریشا ن اور امداد کے مستحق ہو گئے ہیں۔ 

mumbra Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK