Inquilab Logo

متھرا کی شاہی مسجد سے متعلق معاملے کی آئندہ سماعت کل

Updated: September 29, 2020, 9:36 AM IST | Jeelani Khan Aleeg | Lucknow

متھرا واقع شاہی عیدگاہ مسجد کو ہٹائے جانے اور اس کی اراضی شری کرشن مندر کو سونپ دینے کی عرضی پر اب ۳۰؍ستمبر کو سماعت ہوگی۔گزشتہ ہفتہ دائر کی گئی عرضی پرپیر کوپہلی سماعت ہونی تھی

Mathura Shahi Mosque - PIC : PTI
متھرا شاہی مسجد ۔ تصویر : پی ٹی آئی

متھرا واقع شاہی عیدگاہ مسجد کو ہٹائے جانے اور اس کی اراضی شری کرشن مندر کو سونپ دینے کی عرضی پر اب ۳۰؍ستمبر کو سماعت ہوگی۔گزشتہ ہفتہ دائر کی گئی عرضی پرپیر کوپہلی سماعت ہونی تھی۔جیسے ہی معاملہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی جج چھایا شرما کے روبرو لایا گیا انہوں نے تھوڑی ہی دیر میں معاملہ کی شنوائی ۳۰؍ستمبر کو کرنے کی بات کہتے ہوئے اسے نمٹا دیا۔عدالت کوآج (پیر کو) یہ طے کرنا تھا کہ کیا یہ درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں۔
 یہ سماعت  اس عرضی پر ہورہی ہے جسےبھگوان شری کرشن براجمان، کٹرا کیشو دیو کھیوٹ اور موضع متھرابازار شہرکی جانب سے اسی طرز پر دائر کیا گیا ہے جس طرز پربابری مسجد کے خلاف رام للا براجمان کو فریق بناتے ہوئے پٹیشن دائر کیا گیا تھا۔عرضی گزاروں کے مطابق،جس جگہ مسجدہے وہ دراصل ’کاراواس‘(جیل) تھی جہاں پر شری کرشن پیدا ہوئے تھے۔
 یہ پورا معاملہ مغربی یوپی کے شہرمتھرا میں واقع شاہی عیدگاہ مسجد اور شری کرشن جنم بھومی سے جڑا ہوا ہے جس میں ہندو فریق ۱۳ء۳۷؍ایکڑ زمین پر مالکانہ حق چاہتے ہیں جبکہ یہ اراضی مسلمانوں کے قبضہ میں ہے اور ایک معاہدے  کے تحت مسجد منتظمین پہلےہی مذکورہ مندرکو زمین دے چکے ہیں تاہم  اب رام مندر مقدمہ میں جیت کے بعد اس مسئلہ کو اچھالا جارہا ہے اور اس پوری جگہ کو یہ کہتے ہوئے مانگا جارہا ہے کہ یہ بھگوان شری کرشن کی جنم بھومی ہے اور مغلوں نے جبراً اس پر قبضہ کرکے مسجد تعمیر کردی تھی۔مسجد اور مندر دونوں بالکل آس پاس ہیں۔ عرضی دائر کرنے والوں میںلکھنؤ کی وکیل رنجنا اگنی ہوتری ،ترپراری ترپاٹھی ، سدھارتھ نگر کے راجیش منی ترپاٹھی اور دہلی کےپرویش کمار ، کرونیش کمار شکلا اور شیواجی سنگھ کے علاوہ ہری شنکر جین اور وشنو شنکر جین شامل ہیں۔ ہری شنکر اور وشنو شنکرسپریم کورٹ کے وکیل ہیں اور بابری مسجد معاملے میں ہندو فریق کے پیرو کار رہ چکے ہیں۔پٹیشن دائر کرنے والوں نے ۶۰؍صفحات پر عرضی میں ۱۹۶۸ءکے معاہدے کو ماننے سے صاف انکار کرتے ہوئے اپنے مطالبات رکھے ہیں۔
 اس معاملے میں وکیل رنجنا اگنی ہوتری نے (نیکسٹ فرینڈ) سرپرست کے طور پرپٹیشن دائر کیا ہے، جس میں کرشن کے چھ بھکتوں کے نام مدعی کے طور پر شامل کئے گئےہیں ۔یہ پٹیشن اس وجہ سے بھی سمجھ سے پرے ہے کہ ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ۱۹۹۱ء‘ میں صاف کہا گیا ہے کہ ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ءکے بعدسےاجودھیا واقع متنازع بابری مسجدکے علاوہ ملک میں جتنے بھی مذہبی مقامات جس فرقہ سے وابستہ تھے،وہ اسی فرقہ کے رہیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK