Inquilab Logo

اب متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد کو ہٹانے کیلئے عدالت میں پٹیشن

Updated: September 27, 2020, 5:57 AM IST | Jeelani Khan Aleeg | Lucknow

شاہی عیدگاہ مسجد کو ہٹانے اور ۱۳ء۳۷؍ایکڑ کی اراضی پر مالکانہ حق کا دعویٰ ،ونئے کٹیار نے عرضی کی حمایت کی

Mathura Mosque
متھرا کی مشہور عید گاہ مسجد

ملک کے مسلمانوں کو جس بات کے خدشات تھے وہ سامنے آنے لگے ہیں۔ بابری مسجد معاملے میں جیت کے بعد اب متھرا واقع شاہی عیدگاہ مسجد پربھی  قبضہ کی تیاری تیز کی جارہی ہے۔اسی مقصد سے متھراضلع اور سیشن کورٹ میں پٹیشن داخل کرکے مسجد کو ہٹانے اور وہاں کی ۱۳ء۳۷؍ ایکڑ زمین پر مالکانہ حق دینے کی مانگ کی گئی ہے۔  پٹیشن دائر کرنے والوں میں بابری مسجد معاملے میں ہندو مہاسبھا کی پیروی کرچکے ۲؍ وکلاء بھی شامل ہیں۔پٹیشن کی خبر سنتے ہی بھگوا بریگیڈ نے کھلی حمایت بھی شروع کردی ہے جس میں ونئے کٹیار پیش پیش ہیں جبکہ ا کھاڑہ پریشد تو پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ شری کرشن جنم بھومی کے لئےبھی تحریک شروع کی جانی چاہئے۔
 مغربی یوپی کے شہرمتھرا کوہندو عقیدے کے مطابق شری کرشن کی جائے پیدائش کہا جاتا ہےاور وہاں ان کے نام سے مندر بھی ہےمگر جس جگہ کو ان کی جائے پیدائش بتایا جاتا ہے وہاں مسلمانوں کی شاہی عیدگاہ مسجد ہے،جس کے سبب ۱۳ء۳۷؍ایکڑ اراضی پر تنازع ہے ۔اب اس پوری اراضی کو کرشن جنم بھومی مندرکی ملکیت بتاتے ہوئے مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔عرضی دائر کرنے والوں میں وکلاءرنجنا اگنی ہوتری، ہری شنکر جین، وشنو شنکر جین اور دیگرشامل ہیں۔ یاد رہے کہ ہری شنکر اور وشنو شنکر بابری مسجد معاملے میں ہندوفریق کے پیرو کار رہ چکے ہیں۔۶۰؍صفحات پر مشتمل اس عرضی پر پیر کی صبح۱۱؍ بجے سماعت ہوگی۔

 یہ پٹیشن بھی رام للا براجمان کی طرز پر دائرکی گئی ہے ۔اس میں بھگوان شری کرشن براجمان کو فریق دکھایا گیا ہے جو تحریر کے مطابق اپنی زمین واپس چاہتے ہیں۔پٹیشن میں مندر کو عیدگاہ سےآزاد کرانے کی مانگ کی گئی ہے۔عرضی گزاروں نے۱۳ء۳۷؍ایکڑ زمین پر مالکانہ حق کا دعویٰ کیا ہے، جو ان کے بقول شری کرشن کی جنم بھومی ہے اور مغل دور میں جبراًقبضہ کرکےاس پر شاہی عیدگاہ مسجد تعمیر کردی گئی تھی۔اجودھیا مقدمہ کی طرح اس معاملے میں شری کرشن براجمان کی طرف سے وکیل رنجنا اگنی ہوتری نے (نیکسٹ فرینڈ) سرپرست کے طور پرپٹیشن دائر کی ہے  جس میں کرشن کے چھ بھکتوں کے نام بھی مدعی کے طور پر شامل ہیں اور یہ مقدمہ ’بھگوان شری کرشن براجمان، کٹرا کیشو دیو کھیوٹ  اور موضع متھرابازار شہر کے نام پر دائر کیا گیا ہے۔عرضی گزاروں کے مطابق، جس جگہ مسجدہے وہ دراصل ’کاراواس‘(جیل) تھی جہاں پر شری کرشن پیدا ہوئے تھے۔ حالانکہ، متھرا واقع شری کرشن جنم بھومی ٹرسٹ نے خود کو اس مقدمہ سے صاف طور پر الگ رکھا ہے۔ اس کے سیکریٹری کپل شرما نے کہا ہے کہ اس مقدمہ سے ٹرسٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔یہ ٹرسٹ ۱۹۵۱ءمیں قائم کیا گیا تھا اور اس وقت یہ طے کیا گیا تھا کہ متھرامیں عالیشان کرشن مندر کی تعمیر کی جائے گی جس کامینجمنٹ مذکورہ ٹرسٹ کے ذمہ ہوگا مگر،۱۹۵۸ءمیںشری کرشن جنم استھان سیوا سنگھ نامی ایک تنظیم تشکیل دی گئی تھی جس نے ۱۹۶۴ءمیں  عدالت میں زمین کے مالکانہ حقوق کے لئے مقدمہ دائر کیا تھا ۔ تاہم، اس تنظیم نے ۱۹۶۸ءمیں مسجد منتظمین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت مسلمانوں نے مندر کے لئے زمین دی تھی اور اس کے عوض انہیں پاس کی زمین ملی تھی مگر، اب جو عرضی داخل کی گئی ہےاس میں اس سمجھوتہ کو ماننے سے بھی انکار کیا گیا ہے۔لیکن، عرضی گزاروں کی راہ میں ایک اہم دشواری’پلیسزآف ورشپ ایکٹ۱۹۹۱ء‘ ہےجس کے مطابق ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ءکے بعد سے جو مذہبی مقامات جس فرقہ سے وابستہ ہیں وہ آج اور مستقبل میں بھی اسی فرقہ کے رہیں گے۔اجودھیا واقع بابری مسجد کو صرف اس سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔ایکٹ کے مطابق، کسی بھی مذہبی مقام پر دوسرے مذہب کی دعویداری نہیں مانی جائے گی۔  ادھر، رام مندر تحریک سے سرخیوں میں آئے بی جے پی لیڈر ونئے کٹیار نے عرضی گزاروں کی کھل کر حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان لوگوں نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر عدالت سے متھراکی کرشن بھومی ہمیں مل جائے تو ٹھیک ورنہ تحریک بھی چلائی جانی چاہئے۔انہوں نے کہا ہے کہ اس ضمن میں غورو خوض کرکے جلد ہی فیصلہ کیا جائے گا۔کٹیار کے مطابق،اجودھیا فتح ہوچکا ہے،رام مندر کی تعمیر کا کام بھی شروع ہوچکا ہے لیکن متھرا اور کاشی ابھی بھی باقی ہیں۔کچھ دنوں قبل اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد کے سربراہ مہنت نریندر گری نے کہا تھا کہ اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار ہو چکی ہے،اس لئےا ب متھرا میں کرشن جنم بھومی حاصل کرنے کےلئے تحریک چلائی جائے گی۔ انہوں نے پریاگ راج میں اکھاڑہ پریشد کی میٹنگ میں سادھو سنتوں کے ساتھ اس معاملےکے ساتھ ساتھ کاشی وشو ناتھ مندرپر بھی  تبادلہ خیال کیا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK