Inquilab Logo

نظربندی کےدوران کئی بارذہن میں یہ بات آئی کہ سیاست سے کنارہ کشی اختیارکرلوں

Updated: July 30, 2020, 10:50 AM IST | Agency | Srinagar

کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ گزشتہ سال ۵؍ اگست کے مرکزی حکومت کے فیصلے پر بیشتر سیاسی جماعتوں کی خاموشی نے مجھے بہت مایوس کیا تھا

Omar Abdullah - Pic : INN
عمر عبد اللہ ۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ کئی دنوں سے جموں کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ اپنی نظربندی کے حوالے سے مختلف انگریزی اخبارات کو انٹرویو دے رہے ہیں اور کشمیر کے سیاسی حالات پر کھل کر اپنی رائے کاا ظہار کررہے ہیں۔ اسی سلسلے کے تحت اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے انہوںنے کہا  کہ مرکزی حکومت کے گزشتہ سال ۵؍ اگست کے فیصلوں کے بعد ملک کی چند ایک کو چھوڑ کر بیشتر سیاسی جماعتوں کی طرف سے خاموشی اختیار کرنے کے رویے نے مجھے مایوس کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نظر بندی کے دوران سیاست سے کنارہ کشی اختیارکرنے کے خیالات میرے ذہن میں کئی بار آگئے۔
 موصوف نے انگریزی روزنامہ’دی ہندو‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’ گزشتہ سال ۵؍ اگست کے فیصلوں کے بعد، میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ میں بہت مایوس ہوں۔ ڈی ایم کے، ترنمول کانگریس، بائیں بازو کی جماعتوں اور کانگریس کے ایک دو افراد کے علاوہ ملک کی ساری سیاسی جماعتوں نے ہمیں بھلا دیا۔‘‘
 نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے کہا کہ جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے خاتمے اور ریاست کو یونین ٹریٹری میں تبدیل کرنے پر خاموشی اختیار کرلی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ بی جے پی کی طرف سے دفعہ۳۷۰؍ اور دفعہ۳۵؍ اے کے خاتمے کیلئے مچائے جانے والے شور وغوغا نے ان پارٹیوں کیلئے کچھ کہنا مشکل بنا دیا لیکن ان پارٹیوں نے جموںکشمیر کو ریاست کے درجے سے محروم کرنے پر بھی خاموشی اختیار کرلی یہاں تک عام آدمی پارٹی اور ٹی آر ایس جو اپنے لئے ریاست کے درجے کیلئے لڑ چکی ہیں، بھی جموں کشمیر کو ریاست کے درجے سے محروم کرنے پر خوش تھیں۔‘‘
 عمر عبداللہ نے کہا کہ نظر بندی کے دوران مجھے سیاست سے کناری کشی اختیار کرنے کے خیالات بار بار آئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بے شک، یہ کہنا غلط ہوگا کہ نظربندی کے دوران میرے ذہن میں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے خیالات نہیں آئے۔ بحیثیت انسان یہ سب شکوک و شبہات میرے ذہن میں بار بار اُبھرے لیکن میں نے یہ سمجھ لیا کہ ایسا کرنے سے میری پارٹی مشکلات کے بھنور میں پھنس جائے گی اور ایک ایسی سیاسی خلا پیدا ہوگی جس سے جموں کشمیر کیلئے نقصاندہ سیاسی جماعتیں فائدہ اٹھائیں گی۔‘‘
 ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ نظر بندی کے دوران جس چیز سے مجھے زیادہ تکلیف پہنچی وہ یہ تھی کہ ہمارے بارے میں  نہایت دھڑلے سے جھوٹ بولا جارہا تھا اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمیں اس کا جواب دینے کا موقع نہیں دیا جارہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ملک کے وعدے الیکشن کے دوران ایک سیاسی جماعت کے وعدوں سے زیادہ اہم ہوتے ہیں لیکن اس کا خیال نہیں رکھاگیا اور اس پر کسی نے افسوس بھی نہیں کیا۔ خیال رہے کہ اس سے قبل عمر عبداللہ نے کہا کہ جب تک کشمیر یونین ٹیریٹری رہے گا، تب تک وہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK