Inquilab Logo

لعنت ہے ہم پر اگر آج بھی ہم اقتدار کے پیچھے بھاگیں گے: عمر عبداللہ

Updated: October 29, 2020, 6:32 PM IST | Agency | Srinagar

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ `اگر ہم موجودہ سیاسی حالات میں بھی اقتدار کے پیچھے بھاگیں گے تو وہ ہمارے لئے لعنت ہے`۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات آپسی چھوٹی سیاسی لڑائیوں میں الجھے رہنے کے نہیں بلکہ ہمیں آج اپنے تشخص اور زمین کے لئے لڑائی لڑنی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سال گذشتہ کے اوائل میں ہم سب جماعتیں الگ الگ راستوں پر چل رہی تھیں لیکن آج ہم ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہونے کے لئے مجبور ہوئے ہیں۔

Omar Abdullah - Pic : INN
عمر عبداللہ ۔ تصویر : آئی این این

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ `اگر ہم موجودہ سیاسی حالات میں بھی اقتدار کے پیچھے بھاگیں گے تو وہ ہمارے لئے لعنت ہے`۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات آپسی چھوٹی سیاسی لڑائیوں میں الجھے رہنے کے نہیں بلکہ ہمیں آج اپنے تشخص اور زمین کے لئے لڑائی لڑنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سال گذشتہ کے اوائل میں ہم سب جماعتیں الگ الگ راستوں پر چل رہی تھیں لیکن آج ہم ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہونے کے لئے مجبور ہوئے ہیں۔
موصوف نے ان باتوں کا اظہار جمعرات کو یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر نوائے صبح کمپلیکس میں پارٹی کارکنوں سے اپنے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا: `آج سیٹیں گننے کا موقع نہیں ہے، آج کرسی اور قتدار کے لئے لڑائی لڑنے کی بات نہیں ہے۔ لعنت ہے ہم پر اگر آج کے حالات میں بھی ہم اقتدار کے پیچھے بھاگیں گے، تو لوگ ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کریں گے آج ہماری نظر سکریٹریٹ پر نہیں بلکہ اپنے تشخص کو بچانے پر ہونی چاہئے`۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ آج سبھی جماعتیں ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا: `سال گذشتہ کے ماہ مارچ اپریل میں ہم سب پارٹیاں پی ڈی پی، کانگریس، پیپلز کانفرنس الگ الگ راستوں پر چل رہی تھیں لیکن آج ہم مرکز کی سازش کے نتیجے میں ہم ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں`۔
انہوں نے کہا کہ آج لوگوں کی نظریں ہماری طرف ہیں کہ آیا ہم زمین اور تشخص کو کس طرح بچانے میں کامیاب ہوں گے۔
موصوف نے کہا کہ دلی والوں نے ہمیں کمزور کرنے کے لئے کوئی حربہ نہیں چھوڑا۔ ان کا کہنا تھا: `دلی والوں نے ہمیں کمزور کرنے کے لئے کوئی حربہ نہیں چھوڑا، جو عقل آج ہمیں آئی ہے کاش پہلے آئی ہوتی تو شاید آج یہ نوبت نہیں آتی`۔
انہوں نے کہا کہ مرکز کی ہمیں کمزور کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہی ہے کہ ہم آج بکھر گئے ہیں اور ان کی سازش کامیاب ہوئی ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ملک کی کئی ریاستیں ہیں جہاں ملک کا باشندہ زمین نہیں خرید سکتا ہے۔
انہوں نے کہا: `ملک کی کئی ریاستوں میں اس سے بھی مضبوط قوانین ہیں جہاں ملک کا باشندہ زمین خرید نہیں سکتا ہے لیکن نہ جانے جموں و کشمیر کے لوگوں کا کیا قصور ہے کہ یہاں باہر کے لوگوں کو زمین خریدنے کی اندھا دھند اجازت دی گئی`۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ جب ہم اپنے حقوق کے لئے آوز اٹھاتے ہیں تو ہمیں ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا: `جو ہم سے سال 2019 میں چھین لیا گیا وہ کسی دوسرے ملک کے آئین میں نہیں بلکہ اسی ملک کے آئین میں درج تھا اور آئین کے تحت حقوق کے لئے آواز اٹھانا غیر قانونی نہیں ہے`۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ قوانین نیشنل کانفرنس نے نہیں بلکہ مہاراجہ ہری سنگھ نے شروع کئے تھے جس کی مورتی کے سامنے جموں میں بی جے پی والوں نے پرسوں ہی ایک پروگرام کیا تھا۔
موصوف نائب صدر نے کہا کہ ناگالینڈ کا لیڈر بھی ملک کے آئین اور جھنڈے کو ماننے سے انکار کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ بات چیت کی جاتی ہے اس کے برعکس ہمیں ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا: `اگر ہمیں ملک کے خلاف بغاوت کرنی ہوتی تو سال 1947 میں ہمارا کارکن مقبول شیروانی قربانی نہیں دیتا، ہم نے تیس برسوں سے قربانیاں دی ہیں ہم کیسے مین اسٹریم چھوڑ سکتے ہیں`۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ ہمارا سب کچھ اس زمین کے ساتھ جڑا ہوا ہے اگر ہم اپنی زمین کو نہیں بچا سکے تو ہم اپنی آنے والی نسل کے لئے کیا چھوڑ کر جائیں گے، آخر ہمارے پاس اس زمین کے علاوہ اپنے بچوں کو دینے کے لئے رہا ہی کیا ہے؟
انہوں نے کہا: `زرعی اصلاحات نے ہی کشمیریوں کو غربت، افلاس اور چکداری سے باہر نکالا، اسی زرعی اصلاحات نے ہمیں زندہ رکھا اور مرکز نے یہی قانون تہس نہس کردیا اور یہ لوگ سوچتے ہیں کہ ہم خاموش بیٹھیں گے`۔
اس تقریب کا انعقاد سابق ایم ایل سی اور پی ڈی پی لیڈر سیف الدین بٹ کی نیشنل کانفرنس میں باضابطہ شمولیت کے سلسلے میں کیا گیا تھا۔ اس موقعے پر پارٹی جنرل سکریٹری علی محمد ساگر اور صوبائی صدر ناصر اسلم وانی کے علاوہ دیگر لیڈران بھی موجود تھے۔
عمر عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ 5 اگست 2019 کو ایسا زلزلہ آیا جس سے ہم آج بھی ہل رہے ہیں، گذشتہ سال کے ابتداء میں جہاں ہم پارلیمانی انتخابات کے بعد اسمبلی انتخابات کی تیاری کا سوچ رہے تھے اور یہاں کی مقامی جماعتیں ایک دوسری کی مخالفت میں لگے ہوئے تھے، لیکن مرکز کے سازش کے نتیجے میں ایسا ماحول پیدا ہوا کہ ہم مشترکہ پلیٹ فارم پر آنے کے لئے مجبور ہوگئے۔
انہوں نے کہا: `ہم نے اپنی چھوٹی سیاسی لڑائیوں میں الجھنے کے بجائے اتحاد کو ترجیح دی کیونکہ آج موقع نہیں کہ ہم الیکشن اور حکومت بنانے کی بات کریں۔ جو لڑائی ہم لڑ رہے ہیں وہ ایک دن، ایک ہفتے اور ایک مہینے کی لڑائی نہیں ہے، معلوم نہیں اس جدوجہد کے دوران ہم میں سے کتنے دم توڑ بیٹھیں گے، لیکن اس لڑائی کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ ہمارا سارا کچھ اس لڑائی سے جڑا ہوا ہے۔ یہ لڑائی ہمارے تشخص، ہماری پہچان، ہمارے آنے والے کل اور اپنے وطن کو بچانے کے لئے ہے۔ یہ لڑائی ہم ہارنے کے لئے تیار نہیں`۔
عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہا کہ جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں کی مشترکہ جدوجہد اقتدار کی لڑائی نہیں ہے، یہ لڑائی وزیر اعلیٰ کی کرسی کے لئے نہیں ہے، اگر ہم آج بھی اقتدار کے پیچھے بھاگے اور اگر آج بھی ہماری نظریں سکریٹریٹ پر مرکوز رہیں تو اس سے زیادہ گھناونی بات کیا ہوسکتی ہے۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ 2019 کے ابتداء میں ہم جموں و کشمیر میں الیکشن کی بات کر رہے تھے اور آج ہم جموں وکشمیر کے تشخص اور پہچان بچانے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا: `ان دلی والوں نے ہمیں بے اختیار کرنے کا کوئی حربہ نہیں چھوڑا، مرکز نے بار بار کوشش کی کہ ہماری آواز بے وزن ہوجائے ، اُن کی سازش کامیاب ہوگئی اور اہم بکھر گئے اور اس کمزور آواز کا نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے`۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ مرکز نے جموں و کشمیر کے ساتھ مسلسل امتیازی سلوک جاری رکھا ہوا ہے۔ ہمارچل، اروناچل پردیش، ناگالینڈ، سکیم اور دیگر ریاستوں میں ایسے اراضی قوانین ہیں جن کے تحت وہاں ملک کے باشندے زمین نہیں خرید سکتے ہیں، لیکن پتہ نہیں جموں و کشمیر کے لوگوں کا کیا قصور ہے کہ یہاں پورے ملک کے لوگوں کو اندھا دھند زمین خریدنے کی اجازت دی جائے گی اور جب ہم اس کے لئے آواز اٹھاتے ہیں تو ہمیں ملک دشمن کہا جاتا ہے اور ہمیں ملک کے خلاف باغی کہا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو بات ہم کر رہے ہیں وہ اس ملک کے آئین میں ہی درج تھی، جو ہم سے 5 اگست 2019 کو چھینا گیا وہ کسی اور ملک کے آئین میں درج نہیں تھا وہ اسی ملک کے آئین میں درج تھا۔ اگر جموں وکشمیر کو وہ خصوصی درجہ نہیں دیا گیا ہوتا تو شائد 1947 میں کوئی اور ہی کہانی بن گئی ہوتی`۔
“انہوں نے کہا کہ یہ دلی والے جب ناگالینڈ والوں سے بات کرتے ہیں، جو نہ ہندوستان کا آئین اور نہ جھنڈا مانتے ہیں، تو انہیں ملک دشمن نہیں کہا جاتا اور نہ ہی ٹی وی چیلنجوں پر ان پر بغاوت کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں لیکن جب جموں وکشمیر کے عوام اپنی زمین اور اپنی پہچان کو بچانے کیلئے آواز اٹھاتے ہیں تو اسے ملک کے خلاف بغاوت کا رنگ دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں بغاوت کرنی ہوتی تو ہم نے 30 سال تک بے بہا قربانیاں پیش نہیں کی ہوتیں۔ ہمارا یہ ماننا تھا کہ ہم جو کچھ بھی حاصل کریں گے آئین کے اندر اور پُرامن طریقے سے ہی کریں گے لیکن آج ہمیں دھکیلا جارہا ہے، آج یہی لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا راستہ غلط تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا یہ لوگ ہم سے کیا چاہتے ہیں، ہمیں ہر لحاظ سے الگ ترازو میں کیوں تولا جاتاہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کل ہی جموں میں پی ڈی پی کو نئے اراضی قوانین کیخلاف پُرامن احتجاج کرنے کی اجازت دی گئی لیکن آج جب اسی جماعت نے سری نگرمیں احتجاج کی کوشش کی تو انہیں گرفتار کیا گیا۔
عمر عبداللہ نے سوال کیا کہ `آخر آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ کیا آپ یہی چاہتے ہیں کہ ہم مین سٹریم چھوڑ دیں؟ جس چیز کے لئے ہم نے 30 سال قربانیاں دیں، کیا آپ کہتے ہیں کہ وہ چھوڑ دیں`۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی ماحول کس طرف کروٹ لیتا ہے اور ہمیں کس طرح کے فیصلے لینے کے لئے مجبور کرتا ہے کسی کو نہیں پتہ۔ کیا پتہ اللہ نے ہمارے لئے کیا سوچا ہوگا۔ اللہ نے جو بھی سوچا ہوگا آخر کار اچھا ہی سوچا ہوگا اور کوئی بھی اچھی چیز آسانی سے حاصل نہیں ہوتی اور اچھی چیز حاصل کرنے کے لئے مشکل راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK