Inquilab Logo

عمرعبداللہ کا اعتراف،ہماری نظربندی پرکشمیریوں کی اکثریت خوش تھی

Updated: July 29, 2020, 10:38 AM IST | Agency | Srinagar

عمرعبداللہ کا اعتراف،ہماری نظربندی پر کشمیریوں کی اکثریت خوش تھی، وہ کہتے تھے’اچھا ہوا اُن کے ساتھ‘

Omar Abdullah - Pic : INN
عمر عبد اللہ ۔ تصویر : آئی این این

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ مرکزی حکومت نے ہماری (جموں کشمیر کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی) حالت مضحکہ خیز بنا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی اکثریت ہماری نظر بندی پر خوش تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ دلی نے ہمیں علاحدگی پسندوں کے مساوی ہونے کے بطور پیش کرنے کی بھی کوششیں کیں۔عمر عبداللہ نے انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’ایمانداری سے بتاؤں،کشمیریوں کی اکثریت ہماری نظر بندی پر خوش تھی، وہ کہتے تھے، اچھا ہوا ان کے ساتھ، اور کہتے تھے کہ فاروق عبداللہ کو’بھارت ماتا کی جے‘ کہنے کا اچھا صلہ ملا۔ جب تک چاہیں تب تک انہیں نظر بند رکھا جانا چاہئے، یہ آپ کو الیکشن لڑنے کا صلہ ہے۔ یہ آپ کو ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۶ء میں احتجاجوں کو دبانے کا معاوضہ ہے۔ ہم ان کو باہر نہیں دیکھنا چاہتے ہیں، وادی میں لوگ ابھی بھی ایسا ہی سوچ رہے ہیں۔‘‘
 عمر عبداللہ نے کہا کہ دلی کی کارروائیوں سے ہماری حالت مضحکہ خیز بن گئی ہے۔انہوں نے کہا  کہ ’’دلی نے کوشش کی کہ ہمیں علاحدگی پسندوں کے بطور پیش کرے لیکن ہم وہ نہیں ہیں۔ ایک بات جس پر میں نظر بندی کے دوران بھی قائم رہا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ میں باہر ایک ایسے سیاسی سوچ کے ساتھ نہیں آؤں گا جس پر میرا خود یقین نہ ہو چہ جائے کہ وہ حالات حاضرہ کے مطابق ہو۔‘‘کشمیر میں مین اسٹریم سیاست کے مستقبل کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کشمیر میں اس وقت مین اسٹریم سیاسی جماعتیں کہاں کھڑی ہیں، اس کیلئے نئی دہلی ذمہ دار ہے۔ ان جماعتوں کا کیا وجود ہے، یہ ایسے سوالات ہیں جو میں گزشتہ سال کے ۵؍ اگست سے خود اپنے آپ سے پوچھ رہا ہوں۔‘‘علاقائی سیاسی جماعتوں کو جموںکشمیر اور باقی ملک کے درمیان ایک پل قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’مین اسٹریم علاقائی جماعتیں جموں کشمیر اور باقی ملک کے درمیان ایک پل کا کام انجام دیتی تھیں، ہم اس رابطے کو باقی رکھنے کیلئے اپنی زندگیاں جوکھم میں ڈالتے رہے، ہم یہاں کے جذبات کے بہاؤ کے خلاف چلتے تھے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK