Inquilab Logo

اوپیک پلس تیل کی پیداوار نہ بڑھانے کے فیصلے پر قائم

Updated: December 06, 2022, 10:37 AM IST | Riyadh

جی۷؍ کی جانب سے روس پر پابندیوں کو برقرار رکھنے کے فیصلے کے بعد تیل پیدا کرنے والے ممالک کا اپنے اقدام میں کوئی تبدیلی نہ کرنے کا اعلان ، تیل کے بحران کا خدشہ

OPEC countries have angered Western countries with their decision:File Photo
اوپیک ممالک نے اپنے فیصلے سے مغربی ممالک کو ناراض کر دیا ہے;فائل فوٹو

  اوپیک پلس نے اتوار کوایک اجلاس میں تیل کی پیداوارکے موجودہ اہداف کوبرقراررکھنے پراتفاق کیا ہے۔اوپیک پلس کے دورذرائع نےایک عالمی نیوز ایجنسی کو بتایاکہ تیل کی مارکیٹ کو چین کی سست معیشت کے اثرات کا اندازہ کرنے کیلئے  جدوجہد کرنا پڑرہا ہےاور روسی تیل کی رسد پر جی ۷؍  نے قدغن لگا دیا ہے۔اوپیک پلس کا یہ فیصلہ جی؍ کے ممالک کی جانب سے روسی تیل کی قیمتوں کی حد مقررکرنے پر اتفاق کے دوروزبعد سامنے آیا ہے۔
  اس گروپ میں تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) اور روس سمیت اس کے غیراوپیک اتحادی شامل ہیں۔اس نےاکتوبر میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ اوردیگرمغربی ممالک کو ناراض کردیا تھا جب اس نے نومبر سے ۲۰۲۳ء  کے آخر تک ، عالمی طلب کا تقریباً ۲؍  فی صد،یومیہ پیداوار میں ۲۰؍ لاکھ بیرل کم کرنے پراتفاق کیا تھا۔ واشنگٹن نے اس گروپ اور اس کے ایک لیڈر ملک سعودی عرب پرالزام عائد کیاہے کہ وہ یوکرین میں ماسکوکی جنگ کے باوجود روس کا ساتھ دے رہے ہیں۔اوپیک پلس نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ اس نے کمزور معاشی آؤٹ لک کی وجہ سے پیداوارمیں کمی کی ہے۔
  چینی معیشت کی سست شرح نمو،عالمی سطح پر معاشی سرگرمیوں میں کمی اوراعلیٰ شرح سود کی وجہ سے اکتوبر کے بعدسے تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے،جس سے مارکیٹ کی قیاس آرائیوں کو تقویت ملی ہے کہ گروپ دوبارہ پیداوارمیں کمی کرسکتا ہے۔گروپ کے اہم وزراء کے فیصلے پر پہنچنے کے بعد اوپیک پلس کے ذرائع نے کہا کہ ’’یہ ۲۰۲۳ءکے اختتام تک جاری رہے گا‘‘  جمعہ کے روز جی ۷؍ممالک اورآسٹریلیا نے روسی سمندری تیل کی قیمت میں ۶۰؍ ڈالرفی بیرل کی حد پراتفاق کیا تھا تاکہ صدر ولادیمیر پوتن  کو آمدنی سے محروم رکھا جا سکے جبکہ روسی تیل کی عالمی منڈیوں میں ترسیل کوجاری رکھا جاسکے۔
 دوسری جانب ماسکو نےکہا ہے کہ وہ اس حد سے کم پر اپنا تیل فروخت ہی نہیں کرے گا اور اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ اس کا جواب کیسے دیا جائے۔بہت سے تجزیہ کاروں اوراوپیک کے وزراء کا کہنا ہے کہ قیمتوں کی حدکاتعیّن ایک الجھاؤ پیدا کرنے والا معاملہ ہےاور شاید غیرمؤثربھی ہے کیونکہ ماسکواپنا زیادہ ترتیل چین اور ہندوستان  جیسے ممالک کو فروخت کررہا ہے اوران ممالک نے تویوکرین میں جنگ کی مذمت کرنے سے بھی انکارکردیا ہے۔
  اوپیک نے روس اور اتحادیوں کے بغیر گزشتہ سنیچر کو ورچوئل اجلاس منعقدکیاتھا لیکن ذرائع کے مطابق تنظیم کے حکام نے روسی تیل کی قیمتوں کی حد پر تبادلہ خیال نہیں کیا۔اتوار کو اوپیک پلس کے اجلاس میں بھی روسی تیل کی قیمتوں کی حد پرغورنہیں کیاگیا ۔روسی نائب وزیراعظم الیگزینڈر نوواک نے اتوار کے روزکہا کہ جی ۷؍ کی مقررہ قیمت پرتیل مہیا نہیں کیا جائے گا اور اس کے بجائے روس پیداوار میں کمی کرے گا۔ان کا کہنا تھاکہ تیل کی اس اس حد سے تیل پیداکرنے والے  دوسرے متاثرہوسکتے ہیں۔جے پی مورگن نے جمعہ کے روزکہا تھا کہ اوپیک پلس چین کی طلب کے رجحانات اورروس کی خام تیل کی قیمتوں کی حد کے ساتھ صارفین کی تعمیل کے تازہ اعداد وشمار کی بنیاد پرنئے سال میں پیداوارکا ازسرنوجائزہ لےسکتا ہے۔اس میں اس بات کو ملحوظ رکھا جائے گا کہ آیاروس مقررہ قیمت میں عالمی مارکیٹ میں تیل مہیا کرتا ہے یا نہیں اور صارف ممالک کا کیا ردعمل ہوسکتا ہے لیکن روسی نائب وزیراعظم نے واضح کردیا ہے کہ ان کاملک ۶۰؍ ڈالرفی بیرل میں تیل مہیا نہیں کرے گا۔
 یاد رہے کہ یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد سے عالمی سطح پر تیل کا بحران پیدا ہوا ہے جس سے نپٹنے کیلئے امریکہ اور یورپی ممالک مختلف اقدامات کر رہے ہیں ۔ امریکہ چاہتا تھا کہ تیل کے داموں پر قابو پانے کیلئے عرب ممالک تیل کی پیداوار  میں اضافہ کریں لیکن تیل کے داموںکو گرنے سے روکنے کیلئے ان ممالک نے تیل کی پیداوار  میں تخفیف کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے مغربی ممالک ناراض ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK