Inquilab Logo

حجاب کی جدوجہد میں جزوی کامیابی، توثیق نہیں ہوئی ،پھر شنوائی ہوگی

Updated: October 14, 2022, 10:15 AM IST | new Delhi

؍۲؍ رکنی بنچ کےدونوں ججوں نے الگ الگ فیصلہ سنایا، جسٹس ہیمنت گپتا نے پابندی کی تائید کی مگر جسٹس سدھانشو دھولیا نے اسے بنیادی حقوق کے منافی قراردیا، کہا کہ عرضی گزار صرف یہ التجا کررہے ہیں کہ انہیں  حجاب پہننے دیا جائے، کیا جمہوریت میں یہ بہت بڑا مطالبہ ہے؟

Advocate Ejaz Maqbool with his fellow lawyer informing the media about the verdict outside the Supreme Court.(PTI)
ایڈوکیٹ اعجاز مقبول اپنے ساتھی وکیل کے ساتھ سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کو فیصلے سےآگاہ کرتے ہوئے۔( پی ٹی آئی)

 کرناٹک میں حجاب پر پابندی  کے خلاف طالبات اور مسلم تنظیموں کو  قانونی جدوجہد  میں جمعرات کو اس وقت جزوی کامیابی ملی جب سپریم کورٹ کی ۲؍ رکنی بنچ نے ججوں میں اختلاف رائے کی وجہ سے پابندی کی توثیق کرنے سے انکار کردیا۔  لگاتار ۱۰؍ دنوں تک  حجاب کیس کی شنوائی کر نے والی ۲؍ رکنی بنچ  جج جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا پر مشتمل تھی۔  جسٹس ہیمنت گپتا نے  پابندی کی تائید کرتے ہوئے اس کےخلاف داخل کی گئی اپیلوں کو خارج کرنے کافیصلہ سنایا جبکہ جسٹس سدھانشو دھولیا نے  اپیلوں  کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے  پابندی کو  طالبات کی نجی زندگی میں مداخلت اور  سیکولر اقدار کے منافی اور  بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قراردیا۔  دو رکنی بنچ کے اس اختلاف کے بعد  اب یہ معاملہ چیف جسٹس  کے سپرد کردیا گیا ہے جو اسے بڑی بنچ کے حوالے کریں  گے۔ اس سلسلے میں آئینی بنچ کی تشکیل کے امکان کو بھی خارج نہیں کیا جاسکتا۔ 
جسٹس  سدھانشو دھولیا کا موقف 
 جسٹس ہیمنت گپتا اور سدھانشو دھولیا کی بنچ نے جمعرات کو  صبح ساھے ۱۰؍ بجے فیصلہ سنایا۔  پہلے جسٹس ہیمنت گپتا  نے  حجاب پر پابندی کی تو ثیق کرنے والےکرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے اس کے خلاف داخل کی گئی ۲۶؍ پٹیشنوں کو خارج کرنے کا اعلان کیا۔اس کے بعد جسٹس سدھانشو دھولیا نے اپنافیصلہ سنایا۔ جسٹس سدھانشو نے حجاب پر پابندی کے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ  اس معاملے میں ہائی کورٹ نے ’مذہب کا لازمی جزو‘  کے جس نظریہ کو بنیاد بنا کر فیصلہ سنایا وہ غیر ضروری ہے۔  انہوں نے کہا کہ ’’ہائی کورٹ نے غلط راستہ اختیار کیا۔یہ دراصل آئین کے آرٹیکل ۱۹ (۱) (اے) ا ور ۲۵(۱) کی رو سے شخصی آزادی   اور پسند سے زیادہ کا معاملہ نہیں ہے۔‘‘
 جسٹس دھولیا نے طالبات کی تعلیم کو ترجیح دی
  جسٹس دھولیا نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ  ان کے ذہن میں بنیادی سوال طالبات کی تعلیم کا تھا۔ انہوں نے کہا کہ  ’’ میرے ذہن میں یہ سوال تھا کہ کیا ہم (پابندی کے ذریعہ)ان کی زندگی بہتر بنارہے ہیں؟ اسی سوال کی بنیاد پر میں نے ۵؍ فروری کے حکومت  کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پابندیوں کو ختم کرنے کافیصلہ سنایا ہے۔ ‘‘کورٹ نے ’قومی ترانہ ‘ سےمتعلق بیجوئے ایمانوئیل کیس کاحوالہ دیا  اور کہا کہ۱۹۸۵ء  میں  سپریم کورٹ نے مذکورہ کیس میں جو فیصلہ سنایاتھا وہ  حجاب  پر پابندی کے تنازع پر بھی صادق آتا ہے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK