Inquilab Logo

لاک ڈاؤن سے عوام کو مختلف مسائل کا سامنا،حکومت سے رعایت کا مطالبہ

Updated: April 12, 2021, 1:04 PM IST | Mumbai

بیشتر علاقوں میںپہلے دن جیسے حالات ۔ ضروری اشیاء کی خریداری کے لئے لوگ گھروں سے نکلے ۔ جگہ جگہ پولیس کا گشت ، گاڑیوں کی چیکنگ اورراہ گیروں سے پوچھ تاچھ ۔ کچھ لوگوں نے شٹر بند کرکے اپنا کام جاری رکھا

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

: مکمل لاک ڈاؤن کے دوسرے دن اتوار کو بھی شہر اور مضافات کے بیشتر علاقوں میںزندگی کی رفتارتھمی ہوئی نظرآئی ، سڑکیں سنسان تھیں تو ضروری اشیاء کی دکانیں کھلی ہوئی تھیں ۔اتوار کی صبح  ضروری سامان لینے کےلئے شہری بڑی تعدادمیںگھروں سے نکلے ۔ دوسری جانب پولیس کا گشت اور چیکنگ بھی جاری رہی ۔ بغیرماسک پہنےلوگوں کے ساتھ سختی بھی کی گئی اور انہیں پولیس کی جانب سے سخت وارننگ اورانتباہ بھی دیاگیا۔یہ بھی دیکھنے اورسننے کو ملا کہ بہت سے دکاندار اپنی دکان کا باہرکا شٹر گراکر اندر اپناکام جاری رکھےہوئےتھے ۔اس انداز میںکام کرنے کی ان کی کوشش تھی کہ پولیس کو اطلاع نہ ہو اور ان کاکام کاج بھی جاری رہے ۔
چوری چھپے کاروبار
 جنوبی ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں پولیس کے خوف کے سبب ضروری اشیاء کی خرید و فروخت کرنے والے  بھی چوری چھپے کہیں پوری دکان تو کہیں آدھا شٹر گرا کر اناج ، دال چاول ، دودھ ،پاؤ اور گوشت فروخت کرتے نظر آئے ۔خاص بات یہ تھی کہ لاک ڈاؤن کااثر محلوں میںبھی نظرآیا اور گلی محلوں میں بھی بھیڑ نظر نہیں آئی ۔مولانا آزاد روڈ ، مدنپورہ ، بھنڈی بازار ، محمدعلی روڈ ، ڈونگری ، نل بازار ، فینسی مارکیٹ اور بائیکلہ مارکیٹ جہاں ہمہ وقت بھیڑ رہتی ہے ، ان علاقوں کے لوگوں نے بھی پولیس کی سختیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور بی ایم سی و حکومت کی ہدایتوں  پر عمل کرتے ہوئے پہلے دن کے مقابلہ دوسرے دن لاک ڈاؤن میں مزید احتیاط سے کام لیا ۔ اس کے علاوہ گلی محلوں میں ٹھیلہ لگانے والے اور سبزی ترکاری اور پھل فروٹ فروخت کرنے والوں نے بھی چوری چھپے اپنا کاروبار جاری رکھا تھا ۔پھل فروٹ اور سبزی ترکاریوں کی سپلائی کے لئے مشہور کرافورڈ  مارکیٹ ،بائیکلہ اور دادر مارکیٹ جزوی طور پر صبح ۴؍ بجے کھولے تو گئے تھے لیکن خریدار ندارد رہے ۔ 
برائے نام آمدورفت ،شٹربند،اندر کام جاری 
 کاندیولی ، چارکوپ ، بوریولی آئی سی کالونی وغیرہ علاقوں میںبھی سڑکوںپرلوگ تو برائے نام نظرآئے ہی ، گاڑیوں کی آمدورفت بھی کم رہی اور تاحدنگاہ دکانوں کےشٹر بند نظرآئے۔ اس دوران کچھ لوگ اپنے محلوں میںتو کچھ دکانوں کےباہربیٹھے باہم گفتگو کرتے نظرآئے ۔ یہی صورتحال لال جی پاڑہ ، ۶۰؍فٹ لنک روڈ اور۹۰؍ فٹ روڈ کی تھی،پورا علاقہ سنسان تھا ۔کچھ ایسے دکاندار جو باہر سےشٹر بندرکھ کر کام جاری رکھے ہوئے تھے ، ان سےپوچھنے پر ان کا کہنا تھا کہ کیاکریں ،پہلے سےہی کاروبار متاثر تھا، اب رہی سہی کسر لاک ڈاؤن سے پوری ہورہی ہے۔ اس لئے اندر ہی اندر کام کررہے ہیںتاکہ پولیس کوخبر نہ ہو،ورنہ بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
 ایمیٹیشن جیولری کے کاروباری شہاب الدین خان نے بتایا کہ ’’لاک ڈاؤن نےتولوگوں کو صحیح معنوں میںلاک کردیا ہے، کیا کیا جائے کچھ سمجھ میںنہیںآرہا ہے۔ ڈیڑھ  دو ماہ بعد ممبئی میںبارش شروع ہوجائے گی ،اس وقت کاروبار ٹھپ ہے،آخرآدمی زندہ کیسے رہے گا،یہ ایک بڑا سوال بن گیا ہے۔‘‘عبداللہ انصاری نے بتایاکہ’’ لاک ڈاؤن ایک بڑی مصیبت بن گیا ہے،اوریہ بھی صاف نہیںہے کہ پیر کے دن سے کیا ہوگا۔حالات معمول پرآئیںگے یاپھر اسی طرح مزیدسختی سے عام آدمی کوگزرناہوگا۔‘‘ ان کے مطابق ’’ حکومت کوئی متبادل پیش کرکے لاک ڈاؤن لگائے ورنہ کورونا سے تو بعد میںپہلے لاک ڈاؤن سے ہی آدمی برباد ہوجائے گا۔‘‘
دھاراوی میںبندکی کیفیت 
 اتوار کی صبح میں ایسٹرن ایکسپریس ہائی کے قریب گھاٹ کوپر بس ڈپو کے دونوں جانب پولیس اہلکاروں نے ناکہ بندی لگاکر تمام آنے جانے والی گاڑیوں کو روک کر پوچھ تاچھ کرتے ہوئے نظر آئے ۔ اسی دوران ایک شناسا پولیس اہلکار نے کہا کہ اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے علاقے میں چائے ملنا مشکل ہوگیا ہے ۔ پولیس اہلکارکا یہ بھی کہنا تھا کہ اتوار کو لاک ڈاؤن کے دوران خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ہم نے کئی لوگوں کے خلاف کیس بھی درج کئے ہیںاور بہت سے لوگوں کو وارننگ بھی دی گئی ہے کہ وہ آئندہ احتیاط برتیں۔
  امام اعظم خان (دھاراری )نے بتایا کہ ویسے بھی اتوار کی بہ نسبت دوسرے دنوں کے مقابلے سڑکوں پر بھیڑ بھاڑ کم رہتی ہے۔ میرے ایمبرائڈری کے کارخانے میں کام ہونے کے باوجود ۲؍ دنوں سے کارخانہ اس لئے بند کرنا پڑا کیوں کہ کارخانے میں ہونے والے کاموں کیلئے ضروری اشیاء  دکانوں سے دھاگے وغیرہ نہیں مل پائے۔ 
  کرلا سے آصف سہیل نے کہا کہ’’ اتوار کی صبح  ایک بار کرلا پائپ روڈ کی دکانوں کو کچھ لوگوں نے کھولا تھا لیکن بعد میں پولیس کی جانب سے برتی جانے والی سختی کی وجہ سے دکانیں بند کردی گئیں ۔ البتہ لوگوں کو ۶۰؍ گھنٹے کے لاک ڈاؤن کی اطلاع پہلے سے ہوگئی تھی ۔ اس لئے ضرورت کی چیزیں عام طور سے لوگوں نے خرید لی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ کئی دکانیں بظاہر بند تھیں لیکن وہاں جانےکے بعد گاہکوں کو دکان سے سامان نکال کر دے دیا گیا ۔ 
 جوگیشوری سے منصور درویش کا کہنا ہے کہ’’ اتوار کو بھی لاک ڈاؤن کا ۱۰۰؍ فیصد اثر دکھائی دیا ۔ جوگیشوری اور میرا روڈ پر بھی پوری طرح سناٹا تھا اور جو لوگ سفر کررہے تھے ۔ وہ بھی پولیس کے خوف سے سہمے ہوئے تھے کہ پولیس اہلکار ان کے خلاف پکڑ کر کہیں کوئی قانونی کارروائی نہ کردیں ۔ حکومت کوچاہئے کہ وہ عوام کوراحت دے کیونکہ وہ پہلے سےہی بہت پریشان ہیں ۔
ممبرا میںلاک ڈاؤن کا اثر
 ریاستی حکومت کی جانب سے ’ بریک دی چین ‘ مہم کے تحت نافذ کئے گئے ہفتہ واری لاک ڈاؤن کے دوسرے روز بھی ممبرا میں کرانے اور دیگر اشیا ءکی دکانیں اور سبزی بازار بھی بند رہے۔ البتہ ممبرا بازار میں اکا دکا سبزی فروشوں نے دکان لگائی تھیں۔
 لاک ڈاؤن کے سبب سڑکوں پر بھی چند ایک ہی آٹو رکشا اور پرائیویٹ گاڑیاں نظر آرہی تھیں۔اسی دوران مسلسل خسارے سے بچنے کیلئے چند موبائل کی دکان کے بند شٹر پر ہوم ڈیلیوری کیلئے دکا نداروں نے اپنا رابطہ نمبر لگایا ہوا تھا۔اس کا مقصد یہ تھا کہ دکان توبند ہے لیکن دکاندار ہوم ڈیلیوری کےذریعے گاہکوں کی خدمت میںحاضر ہے، فون کے ذریعے خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔کئی دکانداروںنے یہ طریقہ اپنایا ہے کہ انہوںنے نمبرات اپنے شٹرپر لکھ دیئے ہیں۔
  عام دنوں میں ٹریفک  سے بھری رہنے والی ممبرا کوسہ کی سڑک لاک ڈاؤن کے دوسرے روز بھی سنسان نظر آئی اور سڑک پرچند آٹو رکشا ہی نظر آئے البتہ گلیوں میں چند کرانے اور سبزی فروشوں نے اپنی دکانیں کھول رکھی تھیں۔ اسی طرح اتوار کی دوپہر امرت نگر علاقے میں فخر الدین شاہ بابا ؒدرگاہ روڈ پر بھی سبزی فروشوں کے اسٹال لگے ہوئے تھے۔البتہ اس کے برخلاف عام لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ کم نظر آیا اوریہ دکھائی دیا کہ زیادہ تر لوگ حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کی پابندیوں پر عمل کرتے ہوئے مجبوراً اپنے اوقات گھروں میںہی گزاررہے ہیں۔ لوگ امید کر رہے کہ کل(پیر سے) حالات معمول پر آ جائیںگے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK