Inquilab Logo

متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجدکیخلاف پٹیشن سماعت کیلئے منظور، وقف بورڈ کو نوٹس

Updated: October 17, 2020, 6:02 AM IST | Mathura

مسجد کو ہٹا کر۱۳؍ ایکڑ زمین سری کرشن جنم بھومی ٹرسٹ کو دینے کا مطالبہ، ذیلی عدالت سے خارج شدہ پٹیشن شنوائی کیلئے منظور ہونے پر ماہرین کا اظہار حیرت۔

mathura shahi mosque. Photo: INN
متھرا کی شاہی عید گاہ۔ تصویر: آئی این این

امید کے برعکس متھرا کی ضلعی عدالت نے اُس عرضی کوقابل سماعت مان لیا ہے جس میں متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کو ہٹانے اور اس کی ا راضی کا مالکانہ حق شری کرشن جنم بھومی ٹرسٹ کو دینے کی مانگ کی گئی ہے۔ جج نے اس سلسلے میں مسجد کمیٹی اور یوپی سنی وقف بورڈ سمیت ۴؍ فریقین کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ معاملے کی اگلی سماعت کیلئے ۱۹؍نومبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ ۱۲؍ اکتوبر کو داخل کی گئی پٹیشن پر ضلع کورٹ نے ذیلی عدالت سے تمام دستاویزات طلب کئے تھے۔ جمعہ کو ان کا جائزہ لینے کے بعد کورٹ نے عرضی کوخارج کرنے کے بجائے شنوائی کیلئے منظور کرلیا۔ یہ عرضی ایڈوکیٹ رنجنا اگنی ہوتری نے مسجد سے متصل مندر میں  نصب مورتی ’بھگوان کرشن ویراج مان‘کی جانب سے داخل کی ہے۔ عرضی میں  کرشن مندر اور مسجد انتظامیہ کے درمیان ۱۹۶۸ء میں   ہونے والے سمجھوتے کو بھی کالعدم قراردینے کا مطالبہ کیاگیا ہے۔ 
 پٹیشن میں عرضی گزاروں   نے  دعویٰ کیا ہے کہ مغل حکمراں  اورنگ زیب نے ۷۰۔۱۶۶۹ء میں  بڑے پیمانے پر جن منادر کو منہدم کرنے کا حکم دیاتھا ان میں  کرشن کی جائے پیدائش پر بنامندر بھی شامل تھا۔ عرضی گزار کے مطابق اورنگ زیب کی فوج آدھا مندر ہی منہدم کرپائی تھی اور اس جگہ پر عید گاہ مسجدتعمیر کردی گئی تھی۔ گزشتہ ہفتہ متھرا ضلع عدالت کی جج سادھنی رانی ٹھاکر نے اس عرضی پر فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے ۱۶؍اکتوبر کی تاریخ طے کی تھی ۔  جمعہ کو انہوں نے اس عرضی کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے شاہی مسجد عیدگاہ کمیٹی، یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ ،شری کرشن جنم بھومی ٹرسٹ اور شری کرشن سیوا سنستھان کو نوٹس جاری کردیا۔یہ نوٹس مسجد ہٹانے کے ساتھ ساتھ ۱۳ء۳۷؍ایکڑ کی ا راضی پرہندو فریقوں کے ذریعہ مالکانہ حق مانگے جانے والی عرضی پر بھیجا گیا ہے۔ضلع عدالت سے رجوع ہونے والوں میں شری کرشن براجمان ،کٹرا کیشو دیو کھیوٹ ،موضع متھرا بازار شہر شامل ہیں ۔دیگر عرضی گزاروں میں پریش کمار ، راجیش منی ترپاٹھی ، ترونیش کمار شکلا ، شیواجی سنگھ ، ترپراری تیواری شامل ہیں ۔اس عرضی کے پیچھے سپریم کورٹ کے وکیل ہری شنکر جین اور وشنو شنکر جین بھی ہیں جو بابری مسجد تنازع میں ہندو فریق کی پیروی کرچکے ہیں ۔دونوں باپ بیٹے اور عرضی گزاروں کی دلیل ہے کہ شاہی عیدگاہ مسجدکی جگہ پہلے ایک جیل تھی جہاں بھگوان کرشن کی پیدائش ہوئی تھی۔اس لئے وہاں سے مسجد ہٹائی جائے اور پوری ۱۳ء۳۷؍ایکڑ اراضی کرشن براجمان کے لئے متعلقہ ٹرسٹ کےمالکانہ حق میں دی جائے۔ضلعی عدالت میں  پٹیشن کو سماعت کیلئے منظور کئے جانے پر حیرت کااظہار کیا جا رہا ہے کیوں  کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ مجریہ ۱۹۹۱ء صاف صاف کہتا ہے کہ بابری مسجد کے علاوہ ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو جو عبادتگاہ کی جو مذہبی حیثیت تھی، وہ برقراررہے گی اوراس کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں  ہوگی۔
سماعت کیلئے منظوری حیران کن کیوں ؟
 اس عرضی کا سماعت کیلئے قبول کیا جانا اس لئے حیران کن ہے کہ پلیس آف ورشپ (اسپیشل پرویژن )ایکٹ مجریہ ۱۹۹۱ء صاف کہتا ہے کہ بابری مسجد کو چھوڑ کر ملک کی تمام عبادتگاہوں  کی جو مذہبی حیثیت ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ءکوتھی وہ اسی طرح برقرارہے گی۔ متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد آزادی سے کافی پہلے سے مسلمانوں کے زیر انتظام ہے۔ بہرحال پلیس آف ورشپ ایکٹ کو بھی سپریم کورٹ میں  چیلنج کیاگیاہے اور معاملہ زیر سماعت ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK