Inquilab Logo

’جہانگیر پوری میں فرقہ وارانہ تشددکیلئے پولیس بھی ذمہ دار‘

Updated: April 20, 2022, 10:46 AM IST | new Delhi

فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ نے قلعی کھول دی، نشاندہی کی کہ فساد مسلمانوں کی سازش کا نتیجہ ہوتا تو پہلے دو جلوس پرامن نہ گزرتے، جلوس میں ہتھیاروں کی نمائش پر بھی سوال

The women of the houses of the arrested youths in Jahangirpuri are sitting anxiously outside the police station. (Photo: PTI)
جہانگیر پوری میں گرفتار کئے گئے نوجوانوں کے گھروں کی خواتین پولیس اسٹیشن کےباہر پریشان بیٹھی ہوئ ہیں۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

:  جہانگیر پوری میں سنیچر کو  ہنومان جینتی کے موقع پر پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ تشدد کی حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے  بائیں بازو کی پارٹیوں کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم  نے  اپنی رپورٹ میں تشدد کیلئے پولیس کو بھی برابر کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ۵۰؍ مقامی خاندانوں  سے ملاقات   کے بعد تیار کی گئی اس رپورٹ میں اس  الزام کو کہ فساد مسلمانوں کی سازش کا نتیجہ تھا، یہ کہتے ہوئے خارج کردیاگیا کہ اگر ایسا ہوتا تو پہلے دو جلوس پرامن نہ گزرتے۔ 
 جہانگیر پوری تشدد پولیس کی کوتاہی کا نتیجہ
  سی پی ایم، سی پی آئی ایم ایل  اور فارورڈ بلاک   کی تحقیقاتی ٹیم نے جہانگیر پوری تشدد کی حقیقت کو جاننے کیلئے  دونوں فرقوں کے ۵۰؍ خاندانوں  سے  معلومات حاصل کی ۔  اس نے اپنی رپورٹ میں    تشدد کیلئے پولیس کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس جلوس کے دوران پولیس کے مناسب انتظامات ہوتے، اسلحہ لے جانے سے روکا گیا ہوتا اور مسجد کے سامنے جلوس کو رُکنے کی اجازت نہ دی جاتی تو جہانگیر پوری کا واقعہ پیش نہ آتا۔ اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ جلوس کے ساتھ پولیس کی دو گاڑیاں تھیں،ایک آگے اور ایک پیچھے اور دونوں میں دود و پولیس اہلکار ہی موجود تھے، فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے سوال کیا ہے کہ جلوس کے دوران پولیس سیکوریٹی کا خاطر خواہ انتظام کیوں  نہیں تھا اور جلوس کے شرکاء کو کھلے عام  ہتھیار لے جانے کی اجازت کیوں دی گئی تھی۔ 
فساد سوچی سمجھی سازش اور ایجنڈہ کا نتیجہ
  رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ فساد کا سبب بننے والا جلوس  بجرنگ دل نے  نکالا تھا اوراس میں  مقامی افرد شامل نہیں تھے بلکہ  باہر کے لوگ شامل تھے۔ ان کے پاس پستول اور دھار دار  ہتھیار تھے۔ شوبھا یاترا دوپہر سے پہلے سی بلاک کا دو بار چکر لگا چکی تھی۔ تیسری بار افطار کے وقت، جلوس دوبارہ سی بلاک پہنچا۔اذان کے دوران مسجد کے سامنے ڈی جے بجایا گیا اور  نماز کے دوران اشتعال انگیز نعرے لگا ئے گئے۔     فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے مطابق  یہ تشدد سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیموں کےمذہبی تقریبات اور تہواروں کو فرقہ وارانہ کشیدگی اور تشدد بھڑکانے کیلئے استعمال کرنے کے ایجنڈے  کا حصہ نظر آتا ہے ۔  
   بلااجازت جلوس نکالاگیا
 فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو پتہ چلا کہ ہنومان جینتی کے موقع پر۱۵۰؍ سے ۲۰۰؍   افراد لوگوں کا ایک گروپ ہاتھوں میں ہتھیار  لہراتے ہوئے   اونچی آواز میں ڈی جے بجاتے ہوئے جہانگیر پوری کی سڑکوں پر نکلا۔ تاہم اس گروپ کے پاس جلوس نکالنے کی اجازت نہیں تھی۔  رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ ’’جیسا کہ  بی جے پی کے کچھ لیڈر الزام لگا رہے ہیں کہ شوبھا یاترا پر حملہ مسلمانوں نے پہلے سے تیار کئے گئے  منصوبہ  کے تحت کیاتھا تو پھر اس یاترا پر دن میں دو بار پہلے حملہ کیوں نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب یہ جلوس تیسری بار سی بلاک پہنچا اور افطار کے وقت ایک مسجد کے سامنے رکا اور نعرے لگانے لگا تو وہاں ہنگامہ ہوگیا۔‘‘
 پولیس  کے رول پر سوالیہ نشان
 فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے پولیس اسٹیشن کا دورہ بھی کیا  اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ دہلی بی جے پی صدر آدیش گپتا، بی جے پی ایم پی ہنس راج ہنس  پولیس اسٹیشن  کے اندر پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ پریس کانفرنس کے دوران وہاں موجود لوگ ’جئے شری رام‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ماضی میں اس علاقے میں فرقہ وارانہ تصادم کا ایک بھی واقعہ نہیں ہوا۔ اس علاقے میں  دہائیوں سے ہندو اور مسلمان ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔کئی دہائیوں   مسلمانوں  میں اکثریت بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی ہے جو  زیادہ تر اپنا کاروبار کرتے ہیں جن  میں چھوٹے کاروبار، مچھلی کی فروخت، کباڑ کا کام وغیرہ شامل ہیں۔

 حیرت کی بات یہ ہے کہ  بی جے پی  اب ان لوگوں کو  بنگلہ دیشی کہہ رہی ہے۔ انہیں روہنگیا بھی کہا جا رہا ہے حالانکہ وہ سبھی دہلی کے رہنے والے ہیں۔علاقے کا دورہ کرنے کے بعد سی پی ایم لیڈر برندا کرات اور سی پی ایم کے دہلی سیکریٹری کے ایم تیواری، جو حقائق تلاش کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے، نے دہلی پولیس کمشنر راکیش استھانہ کو ایک خط لکھ کر پولیس کے کردار پر سوالیہ نشان لگایا اور کہا کہ یہ پولیس کی ذمہ داری تھی۔ ذرا احتیاط کی جاتی تو واقعہ سے بچا جا سکتا تھا۔ خط میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اگر پولیس وقت رہتے اقدامات کرتی تو تشدد کو روکا جا سکتا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر جلوس کی اجازت دی گئی تھی تو پھر اسلحے کی نمائش کی اجازت کیوں دی گئی ہے اور  ایسا کرنے والوں کوروکا کیوں  نہیں گیا۔  ٹیم نے  ہتھیاروں کا  مظاہرہ کرنے والوں کیخلاف آرمس ایکٹ کے تحت کارروائی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔خط میں پوچھا گیا ہے کہ’’ جلوس میں اسلحہ لے جانے کی اجازت کس نے دی اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘  یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ آخر پولیس نے مسجد کے سامنے جلوس کو افطار اور نماز کے وقت نعرہ بازی  سے کیوں نہیں روکا؟خط میں کہا گیا ہے کہ اگر اس جلوس کے دوران پولیس کے مناسب انتظامات ہوتے، اسلحہ لے جانے سے روکا گیا ہوتا اور مسجد کے سامنے جلوس کو رکنے کی اجازت نہ دی جاتی، تو جہانگیر پوری کا واقعہ پیش نہ آتا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ جس پولیس ٹیم کو اس کیس کی تفتیش سونپی گئی ہے وہی اس  واقعے کی ذمہ دار ہے، ایسے میں شفاف تحقیقات کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK