Inquilab Logo

قربانی کی کھالوں کی قیمتوں میں امسال ۹۰؍ فیصد تک کمی

Updated: August 05, 2020, 11:17 AM IST | Inquilab News Network | Gorakhpur

بھینس اور پاڑےکی کھال ۷۰؍ روپے تو بکرے کی کھال محض ۱۵؍ روپے میں فروخت ہوئی

Bakra Mandi - PIC : PTI
بکرا منڈی ۔ تصویر : پی ٹی آئی

عیدالاضحی کے موقع پر ۳؍ دنوں سنت ابراہیمی پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری رہا۔اس سے قربانی کے فریضہ کوانجام دینے والوںکے ساتھ مستحقین بھی شکم سیر ہو ئے۔اگر چہ جانوروں کی کھال کی قیمتوں میں زبردست گراوٹ کے سبب اہل مدارس فکر مند ہیں۔ امسال بھی چھوٹے یا بڑے جانور کی کھال تقریباً ۹۰؍ فیصد خسارے کے ساتھ فروخت کی گئیں ۔نیز متعدد مقامات پر خریدار نہ ملنے کی سبب اس کے ضائع کئے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔  
 چرم قربانی مدارس کی اقتصادی استحکام کا اہم ذریعہ ہو تا ہے۔اس کے پیش نظر عید الاضحی سے قبل مدارس کی جانب سے نہ صرف کلکیش ٹیم تشکیل دی جاتی ہے بلکہ پمفلٹ اور اشتہارات کے ذریعہ بھی چرم قربانی کو عطیہ کر نے کی اپیل کی جاتی ہے۔امسال کورونا اور لاک ڈائون میں مدارس کی اقتصادی حالت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔مزید کسرجانور وں کی کھال کی گرتی قیمت اتار رہی ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران جہا ں بھینس اور  پاڑے کی کھال کی قیمت تقریباً  ۱۵۰۰ ؍ روپے ہوا کرتی تھی وہ آج گھٹ کر فی کھال ۷۰؍ روپے ہو گئی ہے۔ بکرے کی کھال کی قیمت جہاں کچھ برسوں قبل ۲۵۰ ؍ سے ۳۰۰؍ روپے ہوا کرتی تھی وہ آج گھٹ کر ۱۵ ؍ روپے ہو گئی ہے۔کچھ مقامات پر توخریدار نہ ملنے کی وجہ سے کھال کو دفن کرنے کی خبر ہے۔
 کھال کی گرتی قیمت سے اہل مدارس کافی پریشان نظر آر ہے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق عید الاضحی کے موقع پر ہونے والی جانوروں کی قربانی کی کھالوں سے ایک مدرسہ کا کم ازکم ۳؍ ماہ کا معاشی انتظام ہو جاتا تھا لیکن اب کھالوں کی قیمت میں بتدریج گراوٹ سے آمد نی ہو نا تو دور کھال جمع کر نے والے عملہ کا خرچ نکلنا مشکل ہو رہا ہے۔ 
 مولانا حفظ الرحمن اعظمی کا کہنا ہے کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ قر بانی کی کھال سے مدارس اسلامیہ کی ایک بڑی اعانت ہو جاتی ہے لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران کھال کی قیمت میں انتہائی گراوٹ آئی ہے۔ اس سے مدارس کی معیشت پر کافی اثر پڑا ہے لیکن مدارس کا نظام دینی نظام ہے اور اللہ ہی پریشانیوں سے نکلنے کا اسباب پیدا کرتا ہے۔ وہیں،حافظ نظرعالم قادری کاکہنا ہے کہ پہلے چر م قربانی سے ۴؍ لاکھ روپے کی آمدنی ہو جایا کرتی تھی لیکن اب ۴۰؍ہزار روپے بھی جمع کر پا نا مشکل ہو رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK