Inquilab Logo

پروفیسر اپوروانند کے خلاف کارروائی سے اہم شخصیات برہم

Updated: August 07, 2020, 7:10 AM IST | Mumtaz Alam Rizvi | New Delhi

ملک بھر کے ۱۳۳۷؍ دانشوروں ، پروفیسرس،سیاستدانوں ، سماجی کارکنان ، فلمی شخصیات اور طلبہ نے شدید رد عمل ظاہرکیا

Professor Apoorvanand
پروفیسر اپوروانند

شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے معاملہ میں جس طرح سے معروف سماجی کارکن اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کے خلاف دہلی پولیس نے کارروائی کی ہے اور ان سے پانچ گھنٹے تک پوچھ گچھ کی ہے اس کے خلاف  ملک بھر سے آواز بلند ہورہی ہے۔ملک بھر کی قریب ۱۳۳۷؍ اہم شخصیات ، پروفیسر ،صحافی، اساتذہ ،  اراکین پارلیمان ،سماجی کارکنان، دانشور ، سائنسداں اورسابق افسران نے مشترکہ طور پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے برہمی کااظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے جس طرح سے حکومت کے خلاف اٹھنے والی حق کی آواز کو دبانے اور ہراساں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کو فوری طور پر روکاجائے ۔
  اس کے ساتھ ہی عوام سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ ملک کی سالمیت ، جمہوریت ، سیکولرازم اور آئین کو بچانے کیلئےاٹھ کھڑے ہوں ۔ اس بیان میںیہ بھی کہا گیاہے کہ اگر آج ہم جمہوریت کو نہیں سنبھالتے ہیں تو کل یہ نہیں ہوگی ،ختم ہو جائے گی ۔واضح رہے کہ۳؍ اگست کو پروفیسر اپوروانند سے دہلی پولیس نے قریب ۵؍ گھنٹے تک دہلی فسادات کے معاملہ میں پوچھ گچھ کی ۔ اس کے ساتھ ہی ان کے سیل فون کو بھی ضبط کر لیا ہے ۔ بیان کے مطابق  جو کارروائی پروفیسر اپوروانند کے خلاف ہو رہی ہے یہ اب تک کئی اہم سماجی کارکنان اور حکومت کے خلاف بولنے والوں کے خلاف ہو چکی ہے ۔ سماجی کارکنان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جس دن  سماجی کارکنان کو نشانہ نہ بنایا جائے یا کوئی کارروائی نہ کی جائے کیونکہ وہ پولیس کی زیادتیوں اور حکومت کے نظریہ کے خلاف بولتے ہیں ۔  بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اختلاف کریں ، اگر کوئی چیز غلط ہے تو اس کے خلاف آواز بلند کرنا ہمارا جمہوری حق ہے جس سے ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے  ۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ آج جمہوریت بہت ہی خطرناک دور سے گزر رہی ہے ۔ یہ وقت ۴۵؍ سال پہلے اندرا گاندھی کی جانب سے لگائی گئی ایمرجنسی سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر ابھی ہم نہیں بولے تو پھر بہت دیر ہو جائے گی ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ۲؍ مہینے میں ایک درجن سے زائد لوگوں کے ساتھ یہ ہوا ہے جو اب پروفیسر اپوروانند کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ انھیں انڈر سیکشن ۴۳؍ ایف ، یو اے پی اے کے تحت سمن کیا گیا ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ سیکشن ۱۹؍ کے تحت بھی سمن بھیجا گیا ہے ۔ سماجی کارکنان نے کہا کہ یہ کوئی نارمل جانچ نہیں ہے ۔ یہ بہت ہی سوچی سمجھی کارروائی ہے اور یہ ان کے خلاف کارروائی ہے کہ جو سی اے اے کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے اور تحریک میں شامل تھے ۔ یہ بہت ہی بڑے پیمانے پر تیار کیے گئے خاکہ کا حصہ ہے تاکہ کوئی بھی حکومت سے سوال نہ کر سکے ۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب تک صرف ۲۰۲۰ءمیں ۵۹؍ ایف آئی آر ہوئی ہیںاور ۱۷؍ لوگوں کی گرفتار کیا گیا ہے نیز یہ گرفتاریاں یواے پی اے کے تحت کی گئی ہیں ۔    اب تک جو بھی کارروائیاں کی گئی ہیں ان کا ذکر بھی بیان میں ہے۔ اس  بیان پر دستخط کرنے والوں میںایڈمرل ایل رام داس ، فلم ساز انجلی مونٹیریو ، سابق آئی اے ایس افسر اشوک واجپئی،پروفیسر گوہر رضا ،پروفیسر عائشہ قدوائی (جے این یو)،جاوید آنند ، ڈاکٹر جان دیال ، کے پی فیبین ،رکن پارلیمنٹ کمار کیتکر،للتا رام داس ،سیدہ حمید ، شبنم ہاشمی ، ٹیسٹا سیتلواد ، تشار گاندھی ، ارملیش ، پروفیسر علی جاوید پی ڈبلیو اے، وجاہت حبیب اللہ ، انل چامڑیا ، عیسائی رہنما اے سی مائیکل ، صحافی آنند ورما ، انل چودھری ، ارشد اجمل ، ارونا رائے ، ڈی بھٹا چاریہ  اور دیو دیسائی کے علاوہ  مزید افراد شامل ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK