Inquilab Logo

سماجی تنظیموں کا احتجاج، سی اے اے کو واپس لینے سمیت کئی اہم مطالبات

Updated: September 23, 2020, 7:06 AM IST | Mumtaz Alam Rizvi | New Delhi

’ہم اگر اٹھے نہیں تو‘ احتجاجی مہم کے تحت ایک درجن سے زائدخواتین تنظیموں کی رضاکاروں کا کانسٹی ٹیوشن کلب کے باہرمظاہرہ۔ مودی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کی اپیل کرتے ہوئے مظاہرین نے کہا کہ ہم سرکار سے نہیں عوام سے مخاطب ہیں۔ مظاہرے میںعینی راجا ، شبنم ہاشمی ، مریم ڈھابلے ، میمونہ ملا، میناکشی سنگھ اور پروفیسر گوہر رضا جیسی اہم شخصیات کی شرکت۔ مظاہرہ زبردستیختم کرایا گیا

Social Worker Protest against CAA
دہلی میں کانسٹی ٹیوشن کلب کے باہر مرکزی حکومت کے خلاف خواتین تنظیموں کااحتجاج

یو اے پی اے ، این ایس اے اور دوسرے قوانین کے تحت  حق کی آواز بلند کرنے والوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے،اس کے باوجود  انسانیت پسند سماجی کارکنان بے خوف ہوکر مسلسل آواز بلند کر رہے ہیں ۔ یہاں پارلیمنٹ کے قریب واقع کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا کے باہر ایک درجن سے زائد سماجی تنظیموں کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور حکومت کے خلاف جم کر نعرے بازی کی گئی۔اس موقع پر شہریت ترمیمی قانون کو واپس لینے اور دیگر کئی اہم مطالبات بھی کئے گئے۔
   منگل کودوپہر بارہ بجے سے ایک بجے تک کیلئے احتجاجی مظاہرے کاخفیہ طور پر اہتمام کیا گیا تھا ۔ مظاہرہ اپنے وقت پر ٹھیک بارہ بجے شروع ہو گیا تھا۔ اس موقع پر مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں بینر لے رکھا تھا جس پر لکھا تھا’’ ہم اگر اٹھے نہیں تو ‘‘۔اس کے ساتھ پلے کارڈس بھی سب کے ہاتھوں پر تھے جن میں ۱۰۰؍ سے زائد مطالبات لکھے ہوئے تھے ۔ مظاہرہ شروع ہوتے ہی موقع پر پولیس پہنچ گئی۔ مظاہرین کی ریکارڈنگ کی اور پھر انھیں جانے کیلئے کہا گیا ۔ پولیس انتظامیہ نے کہا کہ یا تو آپ لوگ اپنا مظاہرہ ختم کردیں یا پھر گرفتاری کیلئے تیار ہو جائیں ۔ اس دھمکی کے باوجود سماجی کارکنان نے اپنا مظاہرہ جاری رکھا ۔
 ’ انہد‘ کی روح رواں شبنم ہاشمی نے کہا کہ ہم نے اپنا احتجاج درج کرا دیا ہے اور مطالبات بھی پیش کرا دیئے ہیں لہٰذا دس منٹ بعد ہم اپنا مظاہرہ ختم کر دیں گے لیکن باوجود اس کے پولیس انتظامیہ نے گرفتاری کیلئے بس منگوالی۔ مظاہرین میں چونکہ خواتین ہی شریک تھیں، اسلئے انھیں گرفتار تو نہیں کیا تاہم ان کے مظاہرے کو ختم کردایا گیا۔مظاہرین میں معروف سماجی کارکن عینی راجا ، انہد کی روح رواں شبنم ہاشمی ، مریم ڈھابلے ، معروف سائنس داں اور شاعر پروفیسر گوہر رضا ، میمونہ ملا  اور میناکشی سنگھ نے بطور خاص شرکت کی ۔
  شبنم ہاشمی نے انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم اگر اٹھے نہیں تو ....‘‘ کے عنوان سے ملک گیر سطح پر ہمارا احتجاجی مظاہرہ جاری ہے ۔ یہاں آج دہلی کی ۱۳؍ خواتین تنظیموں نے شرکت کی ۔انھوں نے کہا کہ ہماری مہم خواتین کی تنظیمیں ، ایل جی بی ٹی کیو طبقہ ، حقوق انسانی کے ادارے ، ٹریڈ یونین اور کسانوں سے متعلق تنظیمیں شامل ہیں اور ان سب نے گزشتہ ۵؍ ستمبر کو ملک بھر میں آواز بلند کی تھی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ انھوںنے کہا کہ ہم ملک کی جمہوریت ، آئین ، سیکورزم ، حق و انصاف کیلئے کھڑے ہوئے ہیں ۔انھو ںنے کہا کہ گزشتہ کچھ برسوںمیں جمہوری اداروں کا زوال ہوا ہے،یہی سبب ہے کہ ہم نے ۱۳؍ نکات کے ساتھ ۱۰۰؍ سے زائد مطالبات پیش کئے ہیں ۔ جمہوری حقوق کے تحت ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ غیر قانونی اور امتیازات سے پُر سی اے اے کے ساتھ ساتھ این آر سی اور این پی آر کو واپس لیا جائے ۔یہ مطالبہ شمال مشرقی صوبوں میں بسنے والے مقامی طبقات کی خصوصی ضرورتوں کے پیش نظر اہم ہے۔ انھوں نے کہا کہ مذکورہ بالا تینوں قوانین کے نافذ ہونے سے عورتوں  ، مسلمانوں ، دلتوں ، آدیواسیوں اور ایل جی بی ٹی کیو طبقات کے ذریعہ اپنے شہری حقوق کو کھو دینے کا خطرہ لاحق ہے ۔
 شبنم ہاشمی نے بتایا کہ آسام میں ایک کروڑ ۹۰؍لاکھ لوگوں کو اپنی شہریت کھو دینے کا خطرہ ہے، اگر این آر سی کو نافذ کیا گیا تو کروڑوں لوگ اپنی شہریت کھو دیں گے ۔انھوں نے کہا کہ اس میں او سی آئی کارڈ والوں کو بھی اپنے کارڈ کھو دینے کا خطرہ ہے۔انصاف کیلئے جدوجہد کرنے والی اس سماجی کارکن نے کہا کہ ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے پہلے کی طرح ۳۷۰؍ اور ۳۵؍ اے کو بھی بحال کیا جائے اور جموں کشمیر کو مکمل صوبے کا درجہ واپس دیا جائے ۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ یواے پی اے سمیت اس قسم کے قوانین کو فوری طور پر ختم کیا جائے جن کا غلط استعمال کیا جارہا ہے ،اسی کے ساتھ سیاسی قیدیوں کو بھی فوری طور پر رہا کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ حکومت میں شفافیت اور جوابدہی طے کی جائے ، خود کفیل اداروں کو آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جائے ، زندگی اور تحفظ کا حق دیا جائے ، فوڈ سیکوریٹی کو یقینی بنایا جائے ، تعلیم کا حق دیا جائے ، کام کا حق دیا جائے ، سیاسی حصہ داری کا حق ، صحت کا حق ، قدرتی وسائل کا حق ،تکنیک اور نگرانی ، معذوروں کی مدد اور میڈیا کے عنوان سے مطالبات کئے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے اب حکومت کوئی بات نہیں سن رہی ہے چنانچہ اب ہم عوام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ حکومت کو سبق سکھائیں اور اسے اکھاڑ پھینکیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ملک کا باشعور طبقہ بہت تیزی کے ساتھ ان باتوں کو محسوس کرنے لگا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK