Inquilab Logo

کورونا سےنمٹنے کیلئے راہل گاندھی کی ماہرین صحت سے گفتگو

Updated: May 28, 2020, 11:12 AM IST | Agency | New Delhi

ہارورڈ یونیورسٹی کےپروفیسر آشیش جھا اور سویڈن میں عوامی صحت کے ماہر پروفیسر جوہان نے کانگریس لیڈر سے ویڈیوکانفرنسنگ کے دوران کہا کہ کورونا سے دنیا کو ۲۰۲۱ء سے پہلے نجات نہیں ملنے والی ہے۔ ماہرین نے یہ بھی کہا کہ لاک ڈاؤن اس کا حل نہیں ہے بلکہ اس پر قابو پانے کیلئے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹنگ ضروری ہے

Rahul Gandhi - Pic : PTI
راہل گاندھی ۔ تصویر : پی ٹی آئی

بین الاقوامی ماہرین صحت کا خیال ہے کہ وبا کے دور میں داخل ہو رہی دنیا سے کورونا۲۰۲۱ءتک جانے والا نہیں ہے۔ ماہرین نے یہ بھی کہا کہ لاک ڈاؤن صرف اس کا پھیلاؤ روکتا ہےجس میں آہستہ آہستہ نرمی کرکے ٹیسٹنگ بڑھانے اور اس کی دوا بننے تک لوگوں کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ہارورڈ یونیورسٹی کےپروفیسر آشیش جھا اور سویڈن میں عوامی صحت کے ماہر پروفیسر جوہان  سے کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کے کورونابحران  سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں یہ اطلاع دی۔ راہل گاندھی نےاس سے قبل کوروناسے معیشت کو پہنچنے والے نقصان اور ہندوستان کے اس سمت میں اٹھائے گئے اقدامات کے تناظرمیں ماہر اقتصادیات رگھو رام راجن اور نوبل انعام یافتہ ابھیجیت بنرجی سے بات چیت کی تھی۔
 راہل گاندھی کے یہ پوچھنے پر کہ لاک ڈاؤن کا کوروناپر کیا اثر پڑے گا؟ پروفیسر جھا نے کہا کہ اس سے صرف اس وائرس کے پھیلنے کی رفتار کو کم کی جا سکتی ہے۔ لاک ڈاؤن کا پھیلاؤ روکنے اور اس سے لڑنے کی صلاحیت کو بڑھانے کا وقت دیتا ہے۔ وائرس کو روکنا ہے تو اس سے متاثر ہونے والوں کو سماج سے الگ کرنا ہوگا اور ایسا جانچ ہی سے ممکن  ہوگا۔ لاک ڈاؤن سے معیشت کے محاذ پر بہت بڑی چوٹ پہنچتی ہے لہٰذا اس وقت کا استعمال صلاحیت بڑھانے کیلئے نہیں کیا گیا تو یہ بات کافی  نقصان  دہ ثابت ہوگی۔
 لاک ڈاؤن کی وجہ سے مہاجر مزدوروں کے بحران کے بارے میں پوچھے گئے راہل گاندھی کے سوال پر پروفیسر جھا نے کہا کہ ’’کوروناوائرس ایک دو مہینے میں جانے والا نہیں ہے، یہ۲۰۲۱ءتک رہنے والا ہے۔ یومیہ کمانے والے مزدوروں کے پاس مدد پہنچانے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں یقین رہے کہ کل سب کچھ اچھا ہو جائے گا۔ لاک ڈاؤن سے کیا نقصان ہوگا؟ اس کا کسی کو پتہ نہیں ہے لیکن آپ نقصان کو کم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں‘‘۔راہل نے جب ہندی میں سوال کیا کہ’ ’بھیا یہ بتائیے کہ ویکسین کب تک آئے گی؟‘‘ تو پروفیسر جھا نے بھی اس کا ہندی ہی میں جواب دیا اور کہا ’’دو تین ویکسین ہیں جو کام کر سکتی ہیں۔ اس میں ایک امریکہ کی ہے، ایک چین کی ہے، ایک آکسفورڈ کی ہے۔ ابھی پتہ نہیں کون سی مفید ثابت ہوگی۔ ہو سکتا ہے تینوں کام نہ کریں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تینوں کام کر جائیں۔ مجھے یقین ہے کہ کوروناکی دوا اگلے سال تک کہیں نہ کہیں سے آ جائے گی۔‘‘
 پروفیسر جھا نے کہا کہ ابھی تو صرف کوروناہی ہے، آنے والے وقت میں دنیا میں انسان کیلئے  پریشانیوں میں کافی اضافہ ہونے کو ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی تسکین کیلئے  فطرت میں بڑے پیمانے پر مداخلت کیا ہے۔اس طرح جہاں جنگلی حیات  رہنا چاہئے، ان جگہوں پر انسانوں نے اپنی بستیاں بنا لی ہیں۔ جنگلی جانوروں میں کئی طرح کے وائرس ہیں جو اُن کے علاقوں میں موجود ہیں، وہ سب کے سب وائرس انسانوں پر حملہ کریں گے۔ جانوروں اور پرندوں کے وائرس انسان میں داخل ہوں گے تو وہ وبا کی صورتحال اختیار کریں گے۔انہوں نے کہا کہ کورونابحران کے درمیان لاک ڈاؤن کے تعلق سے کئی طرح کے خیالات سامنے آ رہے ہیں لیکن ان سب کے درمیان یہ سمجھنا ضروری ہے کہ لاک ڈاؤن سے صرف وائرس کے پھیلاؤ کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اگر وائرس کو روکنا ہے تو متاثرین کو سماج سے الگ رکھنا ہوگا، اس کیلئے ٹیسٹنگ ضروری ہے۔لاک ڈاؤن سے وائرس نہیں رکتا لیکن یہ آپ کو اپنی صلاحیت میں اضافہ اور تیاریوں کیلئے وقت دیتا ہے۔ لاک ڈاؤن سے معیشت کو بڑا  نقصان ہوسکتا ہے۔ 
 پروفیسر جوہان نے بھی کہا کہ لاک ڈاؤن کورونا کا حل نہیں ہے۔ہندوستان کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ ’’ہندوستان کو جتنی ہو سکے، اتنی زیادہ لاک ڈاؤن میں نرمی دینی چاہئے۔ لاک ڈاؤن کو آہستہ آہستہ ہٹا دیجئے اور صرف معمر افراد کا خیال رکھئے۔ باقی آبادی کو باہر جانے دیجئے کیونکہ کوئی نوجوان اگر کوروناکی زد میں آتا ہے، تو وہ جلد ٹھیک ہو سکتا ہے۔‘‘انہوں نے سویڈن کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ’’سویڈن میں ہم نے پہلے ملک کو پورا لاک ڈاؤن کر دیا لیکن اب ہم نے آہستہ آہستہ یہ پابندیاں ہٹا دی ہیں۔ ہندوستان جیسے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ رکھنے سے معیشت پر کافی گہرا اثر پڑے گا۔ میرا خیال ہے کہ ابھی کسی ملک کے پاس بھی لاک ڈاؤن سے باہر نکلنے کی حکمت عملی نہیں ہے لیکن ہر کسی کو اس سے باہر آنے پر غور کرنا ہوگا۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مرحلہ وار طریقے سے اس سے نمٹا جائے۔ اس میں سب سے پہلے ایک ڈھیل دیں، اس کی جانچ کریں۔ اگر معاملہ بگڑتا ہے تو قدم پیچھے ہٹا لیں۔‘‘مشترکہ خاندان کے درمیان کورونا کا پھیلاؤ روکنے کیلئے زیادہ احتیاط کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے دونوں ماہرین نے کہا کہ جن گھروں میں پورا خاندان ایک ساتھ رہتا ہے، وہاں خطرہ زیادہ ہے۔ انہوں نے نیو یارک کی مثال دی اور کہا کہ وہاں دیکھا گیا ہے کہ جن گھروں کے نوجوان زیادہ باہر نکلتے تھے تو ان کے گھر لوٹنے پر گھر کے بزرگ خطرے میں آ جاتے ہیں۔ ہندوستان میں اس صورت حال سے بچنے کیلئے ٹیسٹنگ میں  زیادہ اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK