Inquilab Logo

عرب ممالک کا اسرائیل کو تسلیم کرنا فلسطین کیلئے دھچکا ہے

Updated: September 27, 2020, 5:00 AM IST | Agency | Geneva

فلسطینی صدر محمود عباس کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب۔ فلسطینی عوام کی جانب سے ڈونالڈ ٹرمپ کی’ سنچری ڈیل‘ اور اسرائیل کے ساتھ امارات اور بحرین کے معاہدوں کو مسترد کرنے کا اعلان۔ ان معاہدوں کو ایک بار پھر ’غداری‘ قرار دیا۔ مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے عالمی کانفرنس کے انعقاد کا مطالبہ

Palestine - Pic : PTI
جنرل اسمبلی میں شرکا محمود عباس ( اسکرین پر) کا خطاب سنتے ہوئے (تصویر: ایجنسی

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ۷۵؍ ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے  فلسطین اتھاریٹی کے صدر محمود عباس نے  حال ہی میں اسرائیل ، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان ہوئے معاہدے پر سخت برہمی کا اظہار کیا  اور مسئلہ فلسطین  کے حل کی خاطر جلد ہی ایک عالمی کانفرنس منعقد کرنے کا مطالبہ کیا۔   جمعہ کی شام  ویڈیو کانفرنس کے ذریعے کئے گئے اپنے خطاب میں محمود عباس نے اسرائیل  کے ساتھ عرب ممالک کے معاہدوں کو فلسطین کیلئے ایک دھچکا قرار دیا۔ 
 محمود عباس نے کہا کہ ’’ متحدہ عرب امارات اور بحرین کا اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملانا  فلسطینی عوام کے لئے ایک دھچکا ہے۔ اس سے یوں لگ رہا ہے کہ ہمیں (فلسطینیوں کو) حاشئے پر ڈالا جا رہا ہے۔ ‘‘  فلسطینی صدر نے کہا ’’ یہ انتہائی افسوسناک ہے اور ہم اس سے انتہائی ناخوش ہیں۔ فلسطینی عوام اپنا فیصلہ خود کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘  انہوں نے زور دے کر کہا کہ’’ مشرق وسطیٰ میں کوئی تبدیلی فلسطینی عوام کی مرضی کے خلاف  نہیں ہو سکتی اور اگر ہوئی تو وہ پائیدار نہیں ہوگی۔‘‘   محمود عباس نے واضح طور پر کہا کہ مشرق وسطیٰ میں حقیقی امن کے قیام کی خاطر  عالمی قوانین کے تحت فلسطین سے اسرائیل    کے ناجائز قبضے کو ہٹانا ہوگا۔ ساتھ ہی ۱۹۶۷ء سے پہلے کی صورتحال کو دوبارہ نافذ کرنا ہوگا۔ 
  عالمی کانفرنس کا مطالبہ
  فلسطینی صدر نے اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ  آئندہ نومبر میں ہونے والی امریکی الیکشن کے بعد  مسئلۂ فلسطین کو حل کرنے کی خاطر عالمی سطح پر خلیجی ممالک کی ایک کانفرنس منعقد کریں۔  انہوں نے واضح کیا کہ ’’ اس کانفرنس کو  اس بات کا مکمل اختیار حاصل ہونا چاہئے کہ وہ فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے  اپنے طور پر کوئی امن عمل شروع کرے۔
  فلسطینی شہر رام اللہ میں واقع  اپنے ہیڈ کوارٹرس سے جنرل اسمبلی کیلئے خطاب کرتے ہوئے محمود عباس نے کہا کہ ’’  اس کانفرنس کا مقصد فلسطین سے ناجائز قبضوں کو ہٹانا اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہونا چاہئے جس کا دالحکومت یروشلم ہو۔ ساتھ ہی انہوں نے فلسطین کی حتمی صورتحال کے قیام پر بھی زور دیا خاص کر پناہ گزینوں کے مسئلے کو حل کرنے پر۔  اس موقع پر محمود عباس امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر تنقید کرنا نہیں بھولے۔ انہوں نے کہا کہ ’’فلسطینی عوام ڈونالڈ ٹرمپ کے امن عمل (سنچری ڈیل) کو مسترد کر چکے ہیں جو کہ جانبدارانہ طور پر اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔‘‘ 
  انہوں نے کہا کہ ’’ واشنگٹن اب غیر جانبدار ثالث نہیں رہ گیا  ہے۔ لہٰذا  فلسطینی عوام  اقوام متحدہ کے قوانین  کے تحت مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ ‘‘محمود عباس نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ’’ فلسطینی عوام   متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ ہوئے معاہدوں پر دستخط کو بھی مسترد کرتے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں یہ عرب ممالک   کی جدوجہد کے ساتھ غداری ہے۔ ان ( فلسطینیوں) کا یقین ہے کہ اسرائیل کے ساتھ کوئی بھی سمجھوتہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک  اسرائیل کی جانب سے خطے میں قبضہ کی گئی اراضی کو خالی نہیں کر دیا جاتا۔ ‘‘ 
  واضح رہے کہ جس دن متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ معاہدے کا اعلان کیا تھا اسی دن محمود عباس نے اس قدم کو فلسطینی عوام کے ساتھ غداری قرار دیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے امارات سے فلسطینی سفیر کو واپس بلالیا تھا۔ محمود عباس نے  او آئی سی کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا تھا جو کہ پورا نہیں ہوا۔ بلکہ او آئی سی کی جانب سے یو اے ای اور بحرین سے ہاتھ ملانے  پر کئی اعتراض بھی نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد عرب لیگ کے اجلاس میں فلسطین کی لاکھ کوشش کے باوجود اس معاہدے کے خلاف کوئی مذمتی قرار داد پیش ہونے نہیں دی گئی۔ اب محمود عباس نے اس معاملے کو عالمی برادری کے سامنے اٹھایا ہے۔ خبر لکھے جانے تک ان کی اس تقریر پر کسی عرب ملک یا کسی عالمی طاقت کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں آیا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK