• Wed, 12 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

یاد ہے بکرے پالنے کا شوقین آصف شیخ؟ اس شوق نے اسے بکروں کا تاجر بنا دیا

Updated: November 12, 2025, 12:26 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai

یاد ہے بکرے پالنے کا وہ شوقین آصف شیخ جس کے تعلق سے انقلاب نے ۲۰۰۶ء میں خبر شائع کی تھی؟ اُس وقت وہ ایس ٹی ڈی (ٹیلی فون بوتھ) چلایا کرتے تھے لیکن ان کا شوق انہیں ترقی کی راہ پر لے گیا۔

Asif Sheikh now considers himself a successful businessman. Photo: INN
آصف شیخ اب خود کوایک کامیاب تاجرمانتے ہیں۔ تصویر:آئی این این
یاد ہے بکرے پالنے کا وہ شوقین آصف شیخ جس کے تعلق سے انقلاب نے ۲۰۰۶ء میں خبر شائع کی تھی؟ اُس وقت وہ ایس ٹی ڈی (ٹیلی فون بوتھ) چلایا کرتے تھے لیکن ان کا شوق انہیں ترقی کی راہ پر لے گیا۔ ۱۰؍ برس بعد وہ بکروں کے کامیاب تاجر بن چکے ہیں ۔ آصف ٹیلی فون بوتھ اور موبائیل کی مرمت کی دکان چلاتے تھے، جو ان کا پہلا پیشہ تھا اس لئے آج تک بہت سے لوگ انہیں آصف ایس ٹی ڈی کے نام سے یاد کرتے ہیں البتہ یہ ان چنندہ افراد میں سے ہیں جنہوں نے پیشہ تو دیگر چُنا تھا لیکن ان کے شوق نے ان کو منتخب کرلیا۔ اب یہی ان کا پیشہ بن گیا ہے۔ بکروں کی تجارت میں انہوں نے اتنی ترقی کی کہ بڑی جگہ کیلئے قلب ممبئی کی رہائش چھوڑ کر ۲۰۱۹ء میں ممبرا منتقل ہوئے جہاں وہ گوتمی اسپتال کے قریب بکروں کا کاروبار کرتے ہیں۔ پیشہ بدلنے کے اپنے فیصلے سے خوش آصف اسے اپنی ترقی کی نشانی کہتے ہیں۔
آصف شیخ (۴۷؍ سال) کی پیدائش مومن پورہ (بائیکلہ) میں ہوئی تھی۔ جوانی کا اکثر حصہ انہوں نے اسی علاقے میں گزارا۔ اُن کا ٹیلی فون بوتھ بھی یہیں تھا۔ جب انہوں نے شوقیہ بکرے پالنے شروع کئے تب مختلف اعلیٰ نسل کے بکرے لایا کرتے تھے۔ ۰۷۔۲۰۰۶ ء میں انقلاب میں عیدالاضحی سے قبل نرالے بکروں کی تصاویر اور ان کی تفصیل شائع ہوئی تھی۔ انہیں بچپن سے بکرے پالنے کا شوق ہے اور ان کے محلے اور گھر میں عیدالاضحی سے ڈیڑھ دو ماہ قبل ہی بکرے خرید لئے جاتے تھے۔ بکرے پالنے کے ان کے شوق کا یہ عالم تھا کہ جب ایس ٹی ڈی کی دکان سے انہیں پہلی آمدنی ہوئی تو پیسے گھر پر دینے کے بجائے انہوں نے ایک بکرا خرید لیا تھا تاکہ سال بھر پالنے کے بعد اس کی قربانی کرسکیں ۔ اسے انہوں نے اپنی دکان پر ہی رکھا تھا۔
کچھ وقت بعد انہوں نے دوسرا بکرا بھی خرید لیا لیکن چند ہی روز میں اندازہ ہوگیا کہ دو بکرے رکھنے کیلئے جگہ کافی نہیں ہے اسلئے اس بکرے کو انہوں نے بغیر کسی منافع کے فروخت کرنے کی کوشش کی ۔ قیمت انہوں نے ۱۵۰۰؍ روپے طے کی تھی مگر کوئی اسے اس قیمت پر خریدنے کو تیار نہیں تھا۔
ان کے مطابق کچھ عرصہ بعد بھیونڈی سے ایک تاجر ان کے علاقے میں آئے۔ آصف بکرا بیچنے میں اتنی مرتبہ ناکام ہوچکے تھے کہ فروختگی کی امید چھوڑ دی تھی اس لئے بیزاری میں انہوں نے اس تاجر کو ۲۵۰۰؍ روپے قیمت بتائی۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اُن  صاحب نے ۲۴۰۰؍ روپے میں اسے خرید لیا۔ اس وقت انہیں ۹۰۰؍ روپے کا منافع ہوا۔ تبھی ذہن میں باقاعدہ کاروبار کا خیال آیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب ماضی کی داستان ہے، فی الحال وہ خود کو ایک کامیاب تاجر مانتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK