Inquilab Logo

بنگلہ دیش میں سماجی تنظیم کا انقلابی قدم،’تیسری صنف‘ کیلئے دینی مدرسے کا قیام

Updated: November 12, 2020, 12:48 PM IST | Agency | Dhaka

ان دنوں عالمی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک خبر سرخیوں میں ہے کہ بنگلہ دیش کی راجدھانی ڈھاکہ میں تیسری صنف (مخنث) کیلئے ایک مدرسہ قائم کیا گیا ہے جو اپنی نوعیت کا پہلا مدرسہ ہے۔

Transgender School
تیسری صنف بھی عزت کی زندگی گزارنا چاہتی ہے جس کا بہترین راستہ حصول علم ہے

ان دنوں عالمی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک خبر سرخیوں میں ہے کہ بنگلہ دیش  کی راجدھانی ڈھاکہ میں تیسری صنف (مخنث) کیلئے  ایک مدرسہ قائم کیا گیا ہے جو اپنی نوعیت کا پہلا مدرسہ ہے۔  اس نجی دینی مدرسے میں ۱۵۰؍ سے زیادہ طلبی کی گنجائش ہے اور یہاں ووکیشنل مضامین کی تعلیم بھی مفت دی جائے گی۔ تیسری صنف جنہیںخواجہ سرا  بھی کہا جاتا ہے  انہیںحال ہی میں ملک میں سرکاری سطح پر بھی تسلیم کر لیا گیا ہے۔انہیںاب  ووٹ ڈالنے کا حق بھی حاصل ہے۔  اور وہ الیکشن میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔
  واضح رہے کہ اس طبقے کی  آج بھی  نوکریوں اور تعلیم تک رسائی انتہائی مشکل ہے۔یہی وجہ ہے کہ خواجہ سرا برادری کے اکثر افرادروزگار کیلئے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور شادیوں یا بچے کی پیدائش پر ناچ گا کر، بھیک مانگ کراپنا چولہا جلاتے  ہیں۔بنگلہ دیشی حکومت کے مطابق ملک میں ۱۰؍ ہزارجبکہ دیگر اندازوں کے مطابق۵۰؍ ہزار  خواجہ سرا موجود ہیں۔ اکثر نے اپنی جنس کو مرد سے عورت میں تبدیل کر دیا ہے۔
  مذکورہ مدرسے کے حکام، مقامی عہدیدار اور خواجہ سرا برادری کے سربراہوںنے’’ دعوت القرآن تیسری صنف‘ مدرسہ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔ یہ مدرسہ ڈھاکہ میں لوہار پل کے نزدیک کامرانگرچار علاقے میں واقعہ ہے۔ اس تین منزلہ عمارت میں گزشتہ سنیچر سے کلاس کا باقاعدہ آغاز کیا گیا ۔یہ مدرسہ ایک ایسی غیر سرکاری فلاحی تنظیم کے مالی تعاون سے بنایا گیا ہے جو مرحوم کاروباری شخصیت احمد فردوس باری چوہدری کے ورثے میں چھوڑی گئی رقم سے قائم ہوئی تھی۔ان کا خواب تھا کہ وہ تیسری صنف کو تعلیم دلوائیں گے۔
 بنگلہ دیش میں  اب تک تیسری صنف کیلئے  یوںخصوصی طور پر کوئی اسکول نہیں کھولا گیا تھا۔ اس اسکول میں داخلے کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں ہے اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ یہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلبہ کو متعدد پیشوں سے وابستہ ہونے کا موقع ملے گا۔اس مدرسے کے سیکریٹری تعلیم و ٹریننگ محمد عبدالعزیز حسینی نےبتایا کہ ’یہ خاصی بڑی عمر میں پتہ چلتا ہے کہ آیا کوئی تیسری صنف کا ہے یا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے عمر کی کوئی حد متعین نہیں کی۔ یہاں خواجہ سرا برادری کا کوئی بھی فرد داخلہ لے سکتا ہے چاہے ان کی عمر جو بھی ہو۔ ‘ شلپی نامی ایک طالبہ نے بتایا ’’ہمیں کوئی نوکری پر رکھنا ہی نہیں چاہتا۔ اگر ہم کچھ تعلیم حاصل کر لیں تو کہیں کام کر سکتے ہیں لیکن ہمارے لئے تعلیم کا کوئی نظام ہی نہیں ہے۔‘‘شلپی جن کے نام کا مطلب ’فنکار‘ ہے کہتی ہیں کہ ’اسی لئے ہم اپنے آباو اجداد کی طرح ناچ گا کرپیسے کماتے ہیں۔
 شلپی نے نویں  تک تعلیم حاصل کی لیکن پھر انھیںا سکول چھوڑنا پڑا کیونکہ انھیں وہاں ہراساں کیا جاتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’جب مجھے معلوم ہوا کہ میں ایک خواجہ سرا ہوں اور اسکول میں سب مجھ سے نفرت کرتے ہیں، ڈرتے ہیں یا میرا مذاق اڑاتے ہیں تو میں نے تعلیم ترک کر دی۔  اگر ہمارے  لئے علاحدہ  نظامِ تعلیم ہوتا ہے تو  ہمیں کوئی تضحیک کا نشانہ نہ بناتا۔‘عبدالعزیز حسینی کے مطابق بنگلہ دیش میں تیسری صنف کو کو اپنے گھرانوں اور معاشرے کی جانب سے نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔کسی خاندان میں خواجہ سرا پیدا ہو تو اس کے والدین عموماً اس اپنانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ تو آپ کسی اور کو کیا کہہ سکتے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ خواجہ سرا معاشرے پر بوجھ نہ بنیں۔ ہم نے یہ مدرسہ اس لئے بنایا تاکہ یہ یہاں قرآن پڑھ سکیں اور بعد میں عزت کی نوکری کر سکیں۔‘شلپی نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ چاہے یہ مدرسہ سرکاری ہو یا نجی  مگر کم از کم اس کے ذریعےتیسری صنف کو تعلیم تک رسائی تو مل رہی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’ہم بھی دوسروں کی طرح پروقار زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اور ہم اپنے قدموں پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔‘‘

bangladesh Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK