روس کے وزیرخارجہ سرگئی لائوروف کااقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعدنامہ نگاروں سے گفتگو میں دعویٰ، کہا:ہم اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کام کررہے ہیں کہ طالبان حکمراں ایک حقیقی نمائندہ حکومت بنانے اور انتہا پسندی کو پھیلنے سے روکنے کے اپنے وعدوں پر عمل کریں
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لائوروف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این
:روسی وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف نے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے اعلان کردہ عبوری حکومت افغان معاشرے کے تمام گروہوں، نسلی مذہبی اور سیاسی قوتوں، کی عکاسی نہیں کرتی، اس لیے ہم رابطوں میں مصروف ہیں۔امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ روس، چین، پاکستان اور امریکہ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ افغانستان کے نئے طالبان حکمران خاص طور پر ایک حقیقی نمائندہ حکومت بنانے اور انتہا پسندی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اپنے وعدوں پر عمل کریں۔روسی وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف نے کہا کہ چاروں ممالک رابطے میں ہیں۔
خیال رہے کہ طالبان نے۱۹۹۶ءسے۲۰۰۱ء تک جاری رہنے والی اپنی سابقہ حکومت سے زیادہ اعتدال پسند اور جامع حکومت تشکیل دینے کا وعدہ کیا تھا جس میں خواتین کے حقوق کا احترام کیا جائے گا۔تاہم ان کے حالیہ اقدامات سے یہ تاثر ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے مزید جابرانہ پالیسیوں کی جانب واپس آرہے ہیں۔
روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’سب سے اہم بات اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جن وعدوں کا طالبان نے عوامی طور پر اعلان کیا ہے ان کو پورا کیا جائے اور ہمارے لیے یہ اولین ترجیح ہے۔‘‘
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں روسی وزیر خارجہ نے مختلف موضوعات کا احاطہ کیا اور افغانستان سے جلد بازی میں انخلا پر امریکی صدر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو نے اس کے ممکنہ نتائج کے بارے میں سوچے بغیر انخلا کیا کہ افغانستان میں بہت سے ہتھیار رہ گئے ہیں، یہ اہم ہے کہ ان ہتھیاروں کو تخریب کاری کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس وقت طالبان کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے پر غور نہیں کیا جارہا۔ان کا کہنا تھا کہ ’’اس وقت طالبان کی بین الاقوامی پہچان کا معاملہ زیر غور نہیں ہے۔‘‘روسی وزیر خارجہ کا یہ بیان طالبان کی جانب سے اقوامِ متحدہ میں افغانستان کی مندوب کی نشست پر نامزدگی کے بعد سامنے آیا۔
طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے گروپ کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کو اقوامِ متحدہ میں افغانستان کا مندوب نامزد کیا تھا۔روس اقوام متحدہ کی ۹؍رکنی اسناد کمیٹی کا رکن ہے جو بعد میں افغانستان کی اقوام متحدہ کی نشست پر مسابقتی دعووں پر فیصلہ کرے گی، کمیٹی میں چین اور امریکہ بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو غطریس نے کہا تھا کہ طالبان کی بین الاقوامی پہچان کی خواہش وہ واحد وجہ ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر ممالک افغانستان میں جامع حکومت اور حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کے احترام کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔