Inquilab Logo

سیلاب زدہ علاقوں میں خوراک کا سنگین بحران

Updated: September 08, 2022, 11:50 AM IST | Agency | Islamabad

اشیائے خوردو نوش کی شدید قلت، پاکستان کے صوبہ بلو چستان میں آٹے کی قیمتوںمیں غیر معمولی اضافہ ،متوسط اور غریب طبقہ بری طرح متاثر ، پیٹ پالنا مشکل ۔ ڈبلیوایچ او کوسیلاب سے تباہ حال علاقوںمیں صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ

Attempting to evacuate a flooded area .Picture:AP/PTI
ایک سیلاب زدہ علاقے سے نکلنے کی کوشش ۔ تصویر:اےپی/ پی ٹی آئی

پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں خوراک کا سنگین بحران پیدا ہوگیا ہے۔سیلاب متاثرین کو کھانے پینے کی اشیاء کے حصول میں دشواری ہورہی ہے۔ بلوچستان میں صورتحال انتہائی خراب ہے۔ یہاں آٹے کی قیمت میں   غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔   میڈیا رپورٹس کے مطابق   بلوچستان کا دیگر صوبوں سے رابطہ منقطع ہونے کی وجہ سے متعدد علاقوں میں اشیا ئےخورد و نوش کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔مال بردار گاڑیوں کی آمد و رفت بند ہونے سے بلوچستان میں آٹے اور گندم کی شدید قلت ہے۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں آٹے کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق کوئٹہ  کے  باشندوں کا کہنا ہے کہ اس وقت شہر میں۲۰؍ کلو آٹے کا تھیلا۲؍ ہزار ۵؍سو روپے میں فروخت ہو رہا ہے جو ایک ہفتے قبل تک ایک ہزار ۸؍ سو روپے کا تھا۔آٹے کے قیمتوں میں اضافے سے متوسط اور غریب طبقہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ کوئٹہ کے ایک مزدور محمد افضل نے  بتایا کہ وہ روزانہ دو کلو آٹا خرید کر گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں، البتہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے سبب اب ایک کلو آٹا ہی خرید سکتے ہیں۔محمد افضل نے بتایا کہ ایک ہفتے قبل تک  ایک کلوگرام آٹا۸۰؍ سے۹۰؍ روپے  میںفروخت ہو رہا تھا ،اب اتنا ہی آٹا خریدنے کیلئے۱۲۵؍ روپے ادا کرتاہوں۔  دوسری جانب آٹے کی قلت پر آٹا کے ڈیلرز کہتے ہیں کہ حالیہ بارش اور سیلاب کے سبب صوبے میں آمد و رفت کے ذرائع متاثر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے گندم کی سپلائی میں خلل پیدا ہوا ہے۔کوئٹہ شہر کے ایک دکاندار عبداللہ نے بتایا کہ سندھ سے گندم لانے والی سیکڑوں گاڑیاں سیلاب کے  سبب کوئٹہ نہیں پہنچ سکی ہیں، جس کی وجہ سے بلوچستان میں آٹے کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ دوسرے بلوچستان میں گزشتہ۱۳؍ روز سے بجلی  سپلائی بھی معطل ہے جس سے مقامی ملز بند ہیں۔  ادھر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ سیلاب سے تباہ حال پاکستان میں  صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔  ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ ایک ہزار۴۶۰؍ سے زیادہ مراکز صحت کو نقصان پہنچا ہے جن میں سے ۴۳۲؍ مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، سب سے زیادہ مراکز صحت سندھ میں تباہ ہوئے ہیں۔ڈبلیو ایچ او اور اس کے شراکت داروں کی جانب سے ۴؍ ہزار ۵؍سو سے زیادہ میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں جبکہ ڈائریا، ملیریا اور ڈینگو وغیرہ کے ۲؍ لاکھ۳۰؍ ہزار سے زیادہ  ٹیسٹ کئے جا چکے ہیں۔ڈبلیو ایچ او کے ترجمان طارق جساریوک کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کووڈ۱۹، ایچ  آئی وی اور پولیو کے ساتھ ساتھ اس طرح کی بیماریاں پہلے ہی پھیل رہی تھیں جبکہ سیلاب کے بعد صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈائریا، ٹائیفائیڈ، خسرہ اور ملیریا کے کیسز کی تعداد میں اضافے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، یہ بیماریاں ان علاقوں میں زیادہ پھیل رہی ہیں جو سیلاب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ صورتحال کے مزید خراب ہونے کے خدشات ہیں جبکہ سیلاب سے شدید متاثر ہونے والے علاقوں تک پہنچنا بھی  انتہائی دشوار ہے۔  ادھر جاپان نے۷۰؍ لاکھ ڈالر کی ہنگامی امداد دینے کا وعدہ کیا۔ قطر نے امدادی سامان کی فراہمی کیلئے فضائی آپریشن کا آغاز کیا ۔  واضح رہےکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی مانسون  میں غیر معمولی  بارش کی وجہ سے آنے والے سیلاب سے پاکستان میں سوا ۳؍ کروڑ سے زیادہ  افراد متاثر ہوئے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK