Inquilab Logo

شیریں ابو عاقلہ کو اسرائیلی فورس ہی نے مارا ہے: اقوام متحدہ کی تصدیق

Updated: June 26, 2022, 10:38 AM IST | Geneva

الجزیرہ اور عینی شاہدین کا دعویٰ درست ثابت ہوا۔ اقوام متحدہ کے دفتربرائے انسانی حقوق کی تحقیقات میں اسرائیل کا یہ الزام غلط ثابت ہوا کہ خاتون صحافی کو فلسطینی جنگجوئوں نے گولی ماری تھی

The Palestinian people have called on the international community to condemn Israel`s actions. (File photo)
فلسطینی عوام نے عالمی برادری سے اسرائیل کی اس حرکت کی مذمت کا مطالبہ کیا ہے ( فائل فوٹو)

 اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ الجزیرہ کی صحافی شیریں ابو عاقلہ کو فلسطینی  جنگجوئوں نے نہیں اسرائیلی فوج نے مارا ہے۔ یاد رہے کہ ۱۱؍ مئی کو قطر کے نیوز چینل الجزیرہ کی رپورٹر شیریں ابو عاقلہ کو غربِ اردن میں سر پر گولی لگی تھی جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئی تھیں۔واقعے کے بعد الجزیرہ نے اسرائیلی فوج پر شیریں کے قتل کا الزام عائد کیا تھا۔ فلسطینیوں کی جانب سے بھی اسرائیل پر الزام عائد کیا گیا تھا تاہم اسرائیل نےاس الزام سے انکار کریا تھا۔الجزیرہ نے کہا کہ ۵۱؍ سالہ شیریں ابو عاقلہ کو اسرائیلی فوجیوں نے ’جان بوجھ کر‘ گولی ماری ہے۔ الجزیرہ کے پروڈیوسر کو بھی گولی مار کر زخمی کر دیا گیا۔
   الجزیرہ کی مشہور صحافی شیریں ابو عاقلہ غربِ اردن کے شہر جنین میں اسرائیلی کارروائی کو کور کرنے کیلئے وہاں پہنچی تھیں۔ الجزیرہ کے مطابق گولی لگنے کے کچھ دیر بعد ہی شیریں کی موت ہو گئی۔ اس کے علاوہ ایک فلسطینی صحافی کے زخمی ہونے کی بھی خبر ہے۔ابو عاقلہ نے اس وقت حفاظتی جیکٹ پہن رکھا تھا اور اس پر جلی حروف میں پریس لکھا ہوا تھا۔ انھوں نے ہیلمیٹ بھی پہن رکھا تھا۔ جب انھیں گولی لگی تو وہ ایک ایسی شاہراہ پر موجود تھیں جس کے قریب ہی فلسطینی جنگجوئوں اور اسرائیلی فوجوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا۔اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیلیوں کے خلاف اندوہناک حملوں کے بعد اس کی فورس ضلع جینن میں ’مبینہ دہشت گردوں‘ کو پکڑنے گئی تھی کیونکہ حملہ آوروں میں دو افراد کا تعلق جینن سے تھا۔جینن میں پناہ گزین کیمپ ہیں اور اسے طویل عرصے سے انتہا پسندوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
 عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے گولی ماری جو جان لیوا ثابت ہوئی۔ اگرچہ اسرائیل نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ گن فائر کا ذریعہ کیا تھا ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کیونکہ فلسطینیوں نے گولی کا جائزہ لینے کیلئے اس کی جانب سے کی گئی درخواست مسترد کر دی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے مشترکہ تحقیقات کرنے کے عمل کو بھی مسترد کیا ہے۔  جینیوا میں جمعے کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انسانی حقوق کیلئے  اقوام متحدہ کے ادارے او ایچ سی ایچ آر کی ترجمان روینا شمداسانی نے کہا کہ ادارے کو پتہ چلا ہے کہ ’جن گولیوں نے ابو عاقلہ کو مارا اور ان کے ساتھی علی سامودی کو زخمی کیا وہ اسرائیلی سیکوریٹی فورس کی جانب سے آئی تھیں اور وہ مسلح فلسطینیوں کی جانب سے اندھا دھند فائرنگ سے نہیں چلی تھیں، جس کا دعویٰ پہلے اسرائیلی حکام نے کیا تھا۔‘او ایچ سی آر کی ترجمان نے کہا ہے کہ یہ پریشان کن ہے کہ اسرائیلی حکام نے کریمینل انویسٹی گیشن نہیں کی۔ان کا کہنا ہے کہ معلومات اسرائیلی فوج اور فلسطینی اٹارنی جنرل نے دی تھیں۔روینا شمداسانی نے کہا کہ واقعے کی صبح چار صحافی اس گلی کی جانب آئے، بہت سی، بظاہر ایک مقصد کے ساتھ اسرائیلی فوجوں کی جانب سے ان کی طرف فائر کی گئیں۔‘’ایک گولی علی سمودی کو لگی اور دوسری ابو عاقلہ کو لگی اور وہ فوراً ہلاک ہو گئیں۔‘ ادھر ن الزامات کو اسرائیل نے ابتدا سے ہی مسترد کیا ہے اور وہ اپنی تحقیقات کر رہا ہے۔دفتر میں ترجمان نے شیریں کی ہلاکت کی تحقیقات کے نتائج کے بارے میں کہا کہ یہ ’آزادانہ مانیٹرنگ‘ کے ذریعے کی گئی ہے۔
 اسرائیل نے کہا ہے کہ اس نے سپاہی کے ہتھیار کی شناخت کر لی ہے جس سے شاید گولی چلی لیکن وہ اس گولی کا جائزہ لئے بغیر اس بارے میں یقین نہیں رکھتا۔تاہم فلسطین کا کہنا ہے کہ وہ گولی اسرائیل کے حوالے نہیں کرے گا کیونکہ وہ اس پر اعتبار نہیں کرتا۔اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے دفتر میں ترجمان روینا شمداسانی نے کہا ہے کہ او ایچ سی ایچ آر کو ’ہمیں ایسی کوئی معلومات نہیں ملی جن سے یہ اشارہ ملے کہ صحافی جس جگہ موجود تھے وہاں مسلح فلسطینیوں نے کارروائی کی۔‘گزشتہ مہینے فلسطین کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں کہا گیا تھا کہ ابو عاقلہ کو اسرائیلی فوج نے جان بوجھ کر گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔الجزیرہ نے اسرائیلی فوج پر شیریں کے قتل کا الزام عائد کیا ہے۔ نیوز چینل نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کی رپورٹر شیریں کو ’جان بوجھ کر مارنے‘ کیلئے اسرائیلی فوج کی مذمت کریں۔یاد رہے کہ شیریں کی موت پر اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا’’فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے اسرائیل پر الزام لگاتے رہتے ہیں۔ ہمارے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق اس بات کا پورا امکان ہیں کہ مسلح فلسطینی شدت پسندوں کی جانب سے اندھا دھند گولہ باری کی وجہ سے الجزیرہ کی صحافی کی موت ہوئی ہے‘۔
شیریں ابو عاقلہ
  ۵۱؍ سالہ ابو عاقلہ بیت المقدس میں پیدا ہوئی تھیں اور ۱۹۹۷ء میں انہوں نے الجزیرہ کیلئے کام کرنا شروع کیا تھا۔ انھوں نے اردن کی یرموک یونیورسٹی سے صحافت کی تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ تمام فلسطینی علاقوں سے رپورٹنگ کرتی تھیں۔ انھوں نے ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء ۲۰۱۲ء ۲۰۱۴ء اور ۲۰۲۱ء  میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کی رپورٹنگ کی تھی۔ان کی ہلاکت کے نتیجے میں عوامی سطح پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK