قبائلی افواج نے شامی حکومت کورکاوٹ نہ ڈالنے کا ا نتباہ دیا۔ اسرائیلی ڈرون نے بھی اطراف میں حملہ کیا۔ وزارت داخلہ نے نئی لڑائی میں سرکاری افواج کو سویدا میں دوبارہ تعینات کئے جانے کی خبروں کی تردید کی.
EPAPER
Updated: July 19, 2025, 11:24 AM IST | Agency | Damascus
قبائلی افواج نے شامی حکومت کورکاوٹ نہ ڈالنے کا ا نتباہ دیا۔ اسرائیلی ڈرون نے بھی اطراف میں حملہ کیا۔ وزارت داخلہ نے نئی لڑائی میں سرکاری افواج کو سویدا میں دوبارہ تعینات کئے جانے کی خبروں کی تردید کی.
شام کے شورش زدہ جنوبی صوبے سویدا میں دروز اور بدو قبائل کے درمیان ایک بار پھر شدید لڑائی چھڑگئی ہے۔ اس طرح شامی افواج کے اس علاقے سے انخلاء کے ایک دن بعد جنگ بندی ٹوٹ گئی ہے۔
الجزیرہ کی خبر کے مطابق جمعہ کو جھڑپوں کا دوبارہ آغاز اس وقت ہوا جب شام کی وزارت داخلہ نے ان اطلاعات کی تردید کی کہ حکومت کی افواج کو دروز اکثریت والے علاقے میں دوبارہ تعینات کیا جا رہا ہے۔سرکاری میڈیا نے ترجمان نورالدین البابہ کے حوالے سے بتایا کہ ’’ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے اور جو کچھ شائع کیا گیا تھا، اس کی ہم واضح طور پر تردید کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نےیہ بھی کہا کہ سرکاری افواج تیاری کی معمول کی حالت میں ہیں اور سویدا میں اب تک کوئی تعیناتی نہیں ہوئی ہے۔
جمعہ کو برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے جنوبی شہر کے مغرب میں ایک طرف قبائلی جنگجوؤں اور بدوؤں کو حکام کی حمایت میں دوسری طرف دروز کے جنگجوؤں کے خلاف ایک بار پھر جھڑپوں کی اطلاع دی۔
دریں اثناء العربیہ نیوزکے ذرائع کے مطابق شامی قبائلی افواج نے جمعہ کو سویدا صوبے میں داخل ہو کر وہاں کارروائی شروع کر دی ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیلی ڈرون طیاروں نے جمعہ کی صبح سویدا کے اطراف میںحملہ کیا۔سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیو گردش کررہی ہیں جن میں قبائلی جنگجوؤں کو سویدا کی لڑائی میں شرکت کیلئے روانہ ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔
’’جنگجوؤں کیخلاف کارروائی کو ہم مجرموں کی حمایت سمجھیں گے‘‘
یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب شام میں عرب قبائل نے جمعرات کو عام اعلان کیا کہ وہ جنوبی صوبے میں بدو قبائل کی مدد کیلئے نکل رہے ہیں۔ان قبائل نے جرمن خبر رساں ایجنسی ’ڈی پی اے‘ کو جاری بیان میں کہا کہ ’’ہم شامی قبائل کے افراد، سویدا میں بدو قبائل کے خلاف قتل و نسل کشی کی بھیانک وارداتوں اور بے گناہ شہریوں کی زبردستی نقل مکانی اور بے دخلی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘ مزید کہا گیا کہ ’’اخلاقی اور قبائلی فریضے کے تحت شامی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان جنگجوؤں کے حرکت کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے جو دوسرے علاقوں سے اپنے بھائیوں کی مدد کیلئے آئے ہیں۔قبائل نے واضح کیا کہ وہ مظلوموں کے دفاع اور خواتین، بچوں اور بوڑھوں کے تحفظ کیلئے اپنا جائز حق استعمال کر رہے ہیں۔بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان جنگجوؤں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کو ہم ان مجرموں کی کھلی حمایت سمجھیں گے اور اس کے نتائج کی اخلاقی و تاریخی ذمہ داری بھی انہی پر ہو گی۔ شامی قبائل اپنے ان محافظ بیٹوں کے پیچھے متحد کھڑے ہیں اور ان کو پہنچنے والے کسی بھی نقصان کا سخت اور یکجہتی پر مبنی جواب دیا جائے گا۔
حملے میں۵۰؍ ہزار جنگجو شامل
ذرائع کے مطابق قبائلی جنگجوؤں نے سویدا شہر پر حملے کا آغاز کر دیا ہے۔ کئی دیہات اور قصبے جن میں اہم ترین مزرعہ کا قصبہ بھی شامل ہے، ان کے قبضے میں آ چکے ہیں۔ اب وہ شمال کی جانب سے دمشق کی طرف جانے والی شاہراہ پر واقع سویدا شہر کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
قبائلی افواج کے ایک ذریعے نے ’ڈی پی اے‘ کو بتایا کہ اس حملے میں۵۰؍ ہزار سے زائد جنگجو حصہ لے رہے ہیں جبکہ مزید ہزاروں جنگجو جمعہ کی صبح مشرقی شام، حلب اور اس کے نواحی علاقوں سے پہنچنے والے ہیں۔ذرائع کے مطابق ۴۱؍ قبائل ان جھڑپوں میں شریک ہیں۔ ان قبائل کی مجموعی آبادی شام کی آبادی کا۷۰؍ فی صد سے زائد حصہ ہے۔ عراق، اردن اور لبنان کے عرب قبائل بھی اپنے بھائیوں کی اپیل پر سویدا جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔قبائلی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جمعرات کو شیخ حکمت الحِجری کے حمایت یافتہ گروہوں کے حملے میں۱۰۰؍ سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ ہزاروں افراد اپنے دیہات سے بے گھر ہو گئے اور ان کے گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا۔
’’باہمی مفاہمت کی کھلی خلاف ورزی‘‘
اس دوران شامی صدارت نے بیان جاری کیا کہ سویدا سے فوجی انخلاء کا فیصلہ اس لئے کیا گیاتھا تاکہ مفاہمت کی کوشش کا موقع مل سکے۔ انخلاء کی شرط یہ تھی کہ قانون سے بغاوت کرنے والے مسلح گروہ تشدد کا راستہ نہیں اپنائیں گے۔ بعد میں جو کچھ پیش آیا ، وہ ان باہمی مفاہمتوں کی کھلی خلاف ورزی ہے اور حالیہ گھنٹوں کے دوران بدو قبائل سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے ان گروہوں سے فرار کی اطلاعات بھی آئی ہیں جو جنوبی شام کے شہر سویدا میں جن کا تعاقب کرکے انہیں نشانہ بنایا گیا۔بیان کے مطابق یہ گروہ نہایت خوفناک پرتشدد کارروائیاں کر رہے ہیں، جن کی وڈیوز پوری دنیا نے دیکھی ہیں۔ ان میں ایسے جرائم شامل ہیں جو مصالحتی وعدوں سے مکمل انحراف اور داخلی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں اور جو ملک میں بد امنی و انتشار کو ہوا دے رہے ہیں۔ اس نے یہ بھی زور دیا کہ ریاست کو اپنی مکمل خود مختاری قائم کرنے اور قانون نافذ کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق واشنگٹن میں امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا ہے کہ ’’ہم شام میں تشدد کے خاتمے کیلئے معاملات میں کردارادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔‘‘