Inquilab Logo

شام: بے گھر ہونے والوں کی تعداد ۹؍ لاکھ تک پہنچ گئی

Updated: February 19, 2020, 1:23 PM IST | Agency | New York

گزشتہ ۹؍ سال سے خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں بے گھر ہونے والی کی تعداد میں غیر معمولی اور تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔اقوام متحدہ کےمطابق یہ تعداد ۹؍ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔اقوام متحدہ کے تازہ بیان کے مطابق شام کے شمال مغربی علاقے میں بحران `خوف کی نئی سطح تک پہنچ چکا ہے۔

شام کے صوبہ ادلب میںبے گھر عورتیں اپنے خیموں کے باہر کام کاج میں مصروف ۔ تصویر : پی ٹی آئی
شام کے صوبہ ادلب میںبے گھر عورتیں اپنے خیموں کے باہر کام کاج میں مصروف ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 نیویارک : گزشتہ ۹؍ سال سے خانہ جنگی  کے شکار ملک شام میںبے گھر ہونے والی کی تعداد میںغیر معمولی  اور تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔اقوام متحدہ کےمطابق یہ تعداد ۹؍ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔اقوام متحدہ کے تازہ بیان کے مطابق شام کے شمال مغربی علاقے میں بحران `خوف کی نئی سطح تک پہنچ چکا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ علاقے میں تشدد کی وجہ سے بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد ۹؍ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ یہ تعداد اس سے پہلے کے اعداد و شمار سے ایک لاکھ زیادہ ہے۔اقوام متحدہ میں امدادی سرگرمیوں کے سربراہ مارک لوکاک کےمطابق متاثرہ افراد میں بیشتر تعداد خواتین اور بچوں کی ہےجنہیں صدمہ پہنچا ہے اور چونکہ کیمپوں میں جگہ نہیں بچی ہے اس لیے وہ یخ بستہ سردی کے موسم میں کھلے آسمان کے نیچے سونے پر مجبور ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کو گرم رکھنے کے لیے پلاسٹک جلاتی ہیں۔ شدید سردی کے سبب کم سن بچے ہلاک ہورہے ہیں۔‘‘
 مارک لوکاک نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا’’شام کے شمال مغربی علاقے میں بحران خوف کی نئی سطح تک پہنچ گیا ہےجہاں يکم دسمبر سے اب تک ۹؍ لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اکیسویں صدی کے اس سب سے بڑے انسانی المیے سے اسی صورت میں بچا جا سکتا ہے جب سیکوریٹی کاؤنسل اور اثر رسوخ والے لوگ کارروائی کریں۔‘‘
 شام کے ادلب اور صوبہ حلب کے آس پاس تقریباً۳۰؍ لاکھ نفوس آباد ہیں جن میں سے بڑی تعداد شام کے دوسرے علاقوں سے بےگھر ہوکر یہاں پہنچی ہے۔ اقوام متحدہ نے اس ضمن میں اپنی پریس ریلیز میں  بتایا کہ ’’بلا امتیاز تشدد برپا ہے۔ اسپتالوں، اسکولوں، رہائشی علاقوں، مساجد اور بازاروں میں حملے کئے گئے ہیں۔بیماریوں کے پھیلنے کا شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ بنیادی ڈھانچہ بری طرح سے تباہ ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
 انہوں نے مزیدبتایا کہ ’’ہمیں اب اس طرح کی بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ جن علاقوں میں بے گھر ہونے والے افراد بسے ہیں ان پر بھی حملے کیے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف بہت سے افراد ہلاک اور زخمی ہورہے ہیں بلکہ مزید لوگ بے گھر ہورہے ہیں۔ ترکی سے متصل سرحد پر بڑا امدادی آپریشن جاری ہے لیکن یہ ناکافی پڑ رہا ہے۔‘‘
 اس بحران کی زدمیںآکربہت سے امدادی اور انسانی حقوق  کے کارکن بھی ہلاک یا بے گھر ہونے پر مجبور ہیں۔ لوکاک کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی  کے اس سب سے بڑے انسانیت سوز المیہ کو مزید بڑھنے سے روکنے کیلئےفوری طور پر ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’انفرادی مفادات کو اس المیہ کو روکنے کے آپریشن کی راہ میں آڑے نہیں آنا چاہئے۔ ہمارے پاس صرف اور صرف جنگ بندی ہی ایک چارہ ہے۔‘‘
اسدحکومت کی معاونت کرنے والی ۸؍ کاروباری شخصیات اورمتعدد اداروں پر یورپی یونین کی جانب سے پابندی 
 یورپی یونین کی طرف سے شام میں بشارالاسد حکومت کی معاونت کرنے  والی ۸؍ کاروباری شخصیات اور متعدد اداروں پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ذرائع‌کے مطابق یورپی یونین کی یورپی کونسل کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نئی پابندیوں میں  شامی حکومت کی مدد کرنے  والی ۸؍ شخصیات اور ۲؍ اداروں کو ہدف بنایا گیا ہے۔یہ شخصیات اورادارے اسد  حکومت پر یورپی ممالک کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے تھے۔
 یورپی کونسل کی طرف سے جاری کردہ فہرست میں جن شخصیات اور اداروں کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے ان میں ياسر عزيز عباس، ماهر برهان الدين ال امام ،وسيم قطان ،عامر فوز ،صقر رستم ، عبدالقادر صبرہ، خضر علي طہ اور عادل انور العلبی شامل ہیں۔اس کے علاوہ قاطرجی اور شام ہولڈنگ گروپ آف کمپنیز کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے۔خیال رہےکہ یورپی یونین نے۲۰۱۱ء میں شام میں  حکومت کا تعاون کرنے والی ۲۷۷؍ شخصیات اور۷۱؍ کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیا تھا۔  کارروائی میں یورپ میں ان کے اثاثوں کی بندش اور سفری پابندیاں شامل ہیں۔

syria Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK