Inquilab Logo

تلنگانہ بھی یوپی کے نقش قدم پر، سی اے اے مخالف مظاہرین کو سمن

Updated: October 12, 2020, 8:10 AM IST | Inquilab News Network | Hyderabad

دہلی ، کیرالا، جموں کشمیر اور بہارسے تعلق رکھنےوالے حیدرآباد یونیورسٹی کے ۱۴؍ طلبہ کے خلاف فروری میں ہی انتہائی خاموشی سے ایف آئی آر درج کرلیاگیاتھا، اب اس کی اطلاع دے کر اور گرفتاری کی دھمکی کے ساتھ انہیں تفتیش کاروں  کے سامنے حاضر ہونے کا نوٹس دیا جارہاہے۔ اِن طلبہ کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں سی اے اے مخالف مظاہرہ میں شرکت کی تھی

CAA Protest - Pic : INN
سی اے اے کیخلاف احتجاج ۔ تصویر : آئی این این

  ایسا لگتا ہے کہ یوپی اور دہلی پولیس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تلنگانہ پولیس نے بھی شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرہ کرنےوالے طلبہ کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کردیاہے۔  یہاں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی     میں ۲۱؍ فروری کو ہونےوالے شہریت مخالف مظاہرہ میں شرکت کی پاداش میں حیدرآباد یونیورسٹی کے متعدد طلبہ کو نوٹس بھیج کر تفتیش کاروں کے سامنے حاضر ہونے کی ہدایت دی گئی ہے۔اس نوٹس سے ہی یہ معلوم ہوا ہے کہ ان کے خلاف سائبرآباد پولیس اسٹیشن نے فروری میں ہی خاموشی سے  ایف آئی آر درج کرلی تھی۔اب اس ایف آئی آر کی اطلاع  دیتے ہوئے  اور گرفتاری کی دھمکی کے ساتھ طلبہ کو تفتیش کاروں کے سامنے حاضر ہونے کی ہدایت دی گئی ہے۔ 
۸؍ اکتوبر کو نوٹس جاری کرکے ۶؍ اکتوبر کو حاضر ہونے کا حکم
 بہوجن اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رکن اور حیدرآباد یونیورسٹی   کے طالب علم منی کانتا پلی کوڈا   جنہیں مذکورہ نوٹس ملا ہے، نے  دی وائر اور دیگر ویب سائٹس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ  انہیں اپنے خلاف ایف آئی آر کی اطلاع پولیس کے نوٹس سے ہی ملی ہے۔  منی کانتا کو  تلنگانہ  پولیس کا یہ نوٹس سنیچر ۱۰؍ اکتوبر کو ملا۔اس میں انہیں  ۶؍ اکتوبر کو تفتیش کاروں  کے سامنے حاضر ہونے کی ہدایت دیتے ہوئے متنبہ کیا گیا ہے کہ فروری میں درج ہونےو الی اس ایف آئی آر کے سلسلے میں انہیں بلا وارنٹ گرفتار کیا جاسکتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نوٹس انہیں دی گئی حاضری کی تاریخ کے ۴؍ دن بعد موصول ہواہے۔ منی کانتا کے مطابق’’ہمیں پتہ بھی نہیں تھاکہ ہمارے خلاف ایف آئی آر درج  ہوئی ہے۔ مجھے سنیچر کی صبح ہی پوسٹ سے ایف آئی آر کی کاپی بھی ملی ہے۔ اس  میں انہوں نے  مجھے ۶؍ اکتوبر کو تفتیشی افسر کے سامنے حاضر ہونے کی ہدایت دی ہےمگر نوٹس بھیجا ۸؍ اکتوبر کو گیا ہے۔ میں تلنگانہ کے نرمل ضلع میں ہوں۔ پولیس نے ہر اس اسٹوڈنٹ کو نوٹس بھیجی ہے جس کا نام ایف آئی آر میں موجود ہے۔‘‘ ملزم بنائے گئے طلبہ کا تعلق کیرالا، جموں کشمیر، بہار اور دہلی سے ہے۔یونیورسٹی چونکہ بند ہے اس لئے اکثر طلبہ اپنے گھر چلے گئے ہیں۔
مظاہرہ کے دن ہی ایف آئی آر درج کرلی گئی تھی
  یاد رہے کہ ۲۱؍ فروری کو حیدرآباد یونیورسٹی   کی مختلف  طلبہ تنظیموں کے کارکنوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی تک مارچ کیاتھا جہاں ۳؍ سے ۴؍ گھنٹے مظاہرہ کیا گیا تھا۔ اس دوران چند تقاریر اور نعرے بازی  ہوئی۔  مظاہرے میں شرکت کرنے والے طلبہ کا تعلق نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا، مسلم اسٹوڈنٹس  فیڈریشن، بی ایس ایف اور دیگر چھوٹی تنظیموں سے تھا۔  مظاہرہ میں مجموعی  طور پر ۱۰۰؍ کے قریب طلبہ شامل تھے۔ پولیس نے اسی دن اس معاملے میں  دفعہ ۱۴۳(غیر قانونی اجتماع)، ۱۸۸(سرکاری افسر کے ذریعہ جاری  کئے گئے حکم کی خلاف ورزی)، دفعہ۳۴(  متعدد افراد کے  ذریعہ ایک ہی مقصد کے تحت جرم کا ارتکاب) کے تحت  ایف آئی آر درج کرلی تھی ۔  
 نوٹس سے طلبہ حیران مگر قانونی لڑائی کیلئے تیار
 اسنیہا جارج جو یونیورسٹی بند ہونے کی وجہ سے کیرالا میں  ہیں اور جنہیں نوٹس ملاہے، نے اندیشہ ظاہر کیا کہ کیا انہیں اس کیلئے تلنگانہ جانا پڑے گا۔اسی طرح آکاش راتھوڑ نے  بتایا ہے کہ انہوں نے مظاہرہ میں تقریر کی تھی اور دیگر مقررین کی طرح  مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایاتھا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ’’یہ ایک عام سی تقریرتھی، پولیس موجود تھی مگراس وقت کسی نے اعتراض  نہیں کیا۔ مظاہرے کو جس طرح پرامن ہونا چاہئے تھا وہ ویسا ہی پرامن تھا۔‘‘ انہوں نے پولیس کے ذریعہ نوٹس بھیجنے کے وقت  پر بھی سوال اٹھایا کہ جو طلبہ دیگر ریاستوں  کے ہیں وہ واپس نہیں آسکیں گے۔  بہرحال حیدرآباد یونیورسٹی   کے طلبہ کی یونین نے اس معاملے سے قانونی طور پر نمٹنے کافیصلہ کیا ہے۔اس کیلئے   جاری کئے گئے مشترکہ بیان میں  کہا گیاہے کہ مظاہرہ کے دن بھی پولیس پرامن مظاہرہ کو روکنے کیلئے بار بار مداخلت کررہی تھی۔ 

 پولیس نے صفائی پیش کی کہ کوئی سنگین دفعہ نہیں لگائی ہے


  پولیس کی اس کارروائی پر اٹھنے والے سوالات پر ڈی سی پی ماتھر  نے صفائی دیتے ہوئے کہا ہے کہ’’ ہم نے ان پر کسی سنگین جرم کے ارتکاب کا الزام عائد نہیں کیا ہے۔ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ طلبہ ویسا ہی مارچ پھر نکالنے کی تیاری کررہے ہیں ۔ ہم نے  صرف نوٹس بھیجا ہے،انہیں گرفتار نہیں کیا ہے۔ وہ سڑکوں  پر نکلے،انہوں نے ٹریفک کیلئے  رکاوٹیں کھڑی کیں اور لوگوں کیلئے پریشانی کا سبب بنے اس لئے ہمیں ایکشن لینا پڑا۔‘‘  ایف آئی آر میں طلبہ پر مرکزی حکومت کے خلاف نعرے بازی اور اشتعال انگیز تقریر کا الزام بھی عائد کیاگیا ہے۔ اس پر جب  ڈی سی پی  سے پوچھا گیاتو انہوں نے گول مول سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’جو کچھ ہوا میں اس کا گواہ ہوں، انہوں نے سڑک جام کی، مولانا آزاد نیشنل اوپن یونیورسٹی کا گیٹ بند کرکے ملازمین تک کواس میں داخل ہونے سے روک دیاتھا۔ ‘‘

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK