Inquilab Logo

اسلام مخالف مشمولات پر ٹویٹراورمرکزکو تلنگانہ ہائی کورٹ کا نوٹس

Updated: June 25, 2020, 9:17 AM IST | Inquilab News Network | Hyderabad

عدالت نے مرکزی وزارت داخلہ اور ٹویٹر کے ذمہ داران سے سوال کیا کہ کورونا وائرس کو مسلمانوں سے جوڑنےوالےنفرت انگیز ٹویٹ اب تک ہٹائے کیوں نہیں  گئے؟ ۴؍ ہفتوں میں جواب مانگا اور پوچھا کہ ٹویٹر کے خلاف اس معاملے میں ضابطہ فوجداری کے تحت کیس کیوں نہ درج کیا جائے؟

Telangana High Court - Pic : INN
تلنگانہ ہائی کورٹ ۔ تصویر : آئی این این

  ٹویٹر پر اسلام مخالف مشمولات اور مسلمانوں کو کورونا وائرس سے جوڑنے والےنفرت انگیز ٹویٹس کے معاملے  میں داخل کی گئی مفاد عامہ کی ایک عرضی پر تلنگانہ ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت اور ٹویٹر انتظامیہ کو نوٹس جاری کردیا ہے۔ کورٹ نے ۴؍ ہفتوں میں جواب طلب کرتےہوئے   جہاں  یہ سوال کیا ہے کہ مذکورہ ٹویٹس اب تک ڈلٹ کیوں  نہیں  کئے  گئےوہیں یہ بھی پوچھا ہے کہ اس معاملے میں ٹویٹر کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت کیس کیوں نہ درج کیا جائے۔ 
  تلنگانہ ہائی کوٹ کا یہ نوٹس اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ ان دنوں سوشل میڈیا کو اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے اوران کے تعلق سےمنفی باتیں پھیلانے کیلئے پوری شدت سے استعمال کیا جارہا ہے۔اس سلسلے میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والےایڈوکیٹ خواجہ اعجاز الدین کو امید ہےکہ کورٹ کی مداخلت کے بعد سوشل میڈیا پراسلام مخالف مشمولات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ تلنگانہ ہائی کورٹ میں داخل کی گئی پٹیشن میں  انہوں نے سوشل میڈیا پر الزام لگایا ہے کہ وہ نفرت پھیلانے  والوں کو باقاعدہ پلیٹ فارم فراہم کررہا ہے۔  انہوں  نے کورٹ سے اپیل کی تھی کہ سماج میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کوششوں پرلگام لگائے اور ایسے تمام نفرت انگیز مشمولات کو سوشل میڈیا سےہٹانےکا حکم دے جو کئی مہینوں سےٹرینڈ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس معاملےمیں مرکزی اور ریاستی حکومتوں  پر بھی خاموش تماشائی بنے رہنے کا الزام عائد کیا ہے۔
  مفاد عامہ کی عرضی پر شنوائی کرتےہوئے تلنگانہ ہائی کورٹ  کے چیف جسٹس رگھویندر سنگھ چوہان اور جسٹس بی وجیہ سین ریڈی نے  مرکزی حکومت، مرکزی وزارت داخلہ اور ٹویٹر کو نوٹس جاری کرنے کےعلاوہ تلنگانہ کے ڈی جی پی اور حیدرآباد کے پولیس کمشنر کو بھی نوٹس بھیجا ہے۔ عرضی گزار نے اپنی اپیل میں  ٹویٹر  کے ممبئی دفتر کا تذکرہ کیا ہے۔ کئی طرح کے پوسٹ اور ٹرینڈنگ پیغامات کا حوالہ دیتے ہوئے عرضی گزار  نے انہیں  اسلام مخالف قرار ددیا اور مطالبہ کیا کہ کابینہ سیکریٹری   اور داخلہ سیکریٹری اس ضمن میں قدم اٹھائیں اوراس بات کو یقینی بنائیں  کہ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمس پر اس طرح کی مہم پر روک لگائی جائے۔  مرکز نظام الدین میں تبلیغی جماعت  کے چند اراکین کے پھنس جانے کو بطور سازش پیش کرکے چلائی گئی نفرت انگیزمہم  کے حوالے سے   ایڈوکیٹ خواجہ اعجاز الدین نے اپنی پٹیشن میں  تلنگانہ ہائی کورٹ کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن  کے موقف سے بھی آگاہ کیا۔ انہوں  نے بتایا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے اس اعلان کے بعد بھی کہ کورونا کو کسی مذہب سے جوڑا نہیں  جا سکتا، یہ نفرت انگیز مہم ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’’یہ اسلام کی توہین ہے  جس سے  مسلمانوں کے جذبات بری طرح مجروح  ہورہے ہیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK