Inquilab Logo

بامبے ہائی کورٹ نے کیس پر مکوکا عائد کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کا حکم دیا

Updated: May 06, 2022, 9:25 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai

عدالت عالیہ نے ملزمین کے ذریعہ مکوکا کو چیلنج کرنے والی عرضی مسترد کرنے کے ٹرائل کورٹ کے طریقے کو غلط قرار دیا

Bombay High Court
بامبے ہائی کورٹ

 اگست ۲۰۰۸ء میں میڈیا ہاؤسز اور پولیس کو انڈین مجاہدین کی طرف سے ای میل بھیج کر احمدآباد، گجرات میں ہونے والے بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے کیس میں بامبے ہائی کورٹ نے ایک ملزم کی عرضداشت پر ٹرائل کورٹ کے ذریعہ اس کیس پر مکوکا عائد کرنے کے فیصلے کو رد کرکے سیشن کورٹ کو حکم دیا ہے کہ اس کیس پر مکوکا عائد کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور ۴؍ ماہ میں اپنا فیصلہ سنائے۔ 
 جسٹس سادھنا جادھو اور جسٹس ملند جادھو پر مشتمل بامبے ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے مبین شیخ نامی ایک ملزم کی ایڈوکیٹ مبین سولکر ،عامر سپاری والا اور طاہرہ قریشی کے ذریعے داخل کی گئی پٹیشن پر سماعت کے بعد یہ فیصلہ سنایا ہے۔
 اس کیس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ اگست ۲۰۰۸ء میں ہندوستان کے مختلف میڈیا ہائوسز اور پولیس کو ای میل موصول ہوئے تھے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ ای میل ’انڈین مجاہدین‘ کے میڈیا سیل نے بھیجے ہیں اور ان میں گجرات کے احمدآباد میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔ ان بم دھماکوں میں ۵۰؍ سے زائد لوگ مارے گئے تھے اور دیگر کئی لوگ زخمی ہوئے تھے۔
 یہ ای میل کو بھیجنے کے الزام میں ممبئی کی کرائم برانچ نے ۰۹-۲۰۰۸ء کے درمیان کئی افراد کو گرفتار کیا تھا۔
 گرفتاری کے چند برس بعد فروری ۲۰۱۳ء میں ملزمین نے سیشن کورٹ میں ایک عرضی داخل کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ بادی النظر میں اس کیس میں ملزمین کے خلاف ایسے کوئی ثبوت نہیں ہیں جن کی بنیاد پر ان پر مکوکا عائد کیا جاسکے لیکن ٹرائل کورٹ نے اسی سال دسمبر  میں ملزمین کی عرضی پر کوئی بھی فیصلہ سنائے بغیر ان پر فرد جرم عائد کردیا اور مکوکا بھی عائد کردیا۔ فرد جرم عائد ہوجانے کی وجہ سے ان کی عرضی بے کار ہوگئی۔ اس کے بعداپریل ۲۰۱۴ء میں ٹرائل کورٹ نے استغاثہ سے جواب طلب کیا کہ سپریم کورٹ کے ضمیراحمد شیخ کے کیس کے فیصلے کی روشنی میں انڈین مجاہدین والے کیس پر سے مکوکا کیوں ختم نہ کردیا جائے۔تاہم یکم ستمبر ۲۰۱۴ء کو عدالت نے یہ کہتے ہوئے اس عرضی کو ختم کردیا کہ اس میں کچھ نہیں بچا۔ بعدازیں مئی ۲۰۱۵ء میں ٹرائل کورٹ نے پھر یہ سوال اٹھایا تھا کہ اس کیس پر سے مکوکا کیوں ختم نہ کیا جائے۔ اس کے جواب میں استغاثہ نے کہا تھا کہ فرد جرم عائد کرتے وقت ملزمین نے ’نوآبجیکشن‘ دیا تھا اور فرد جرم عائد ہوجانے کے بعد عدالت پھر پیچھے کی طرف نہیں جاسکتی اس لئے مکوکا عائد کرنے یا نہ کرنے کا سوال اب درست نہیں۔گرفتار شدگان میں سے مبین شیخ نے بامبے ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کرکے نہ صرف اس کیس پر مکوکا عائد کرنے کو چیلنج کیا تھا بلکہ ٹرائل کورٹ کے ذریعہ ان کی مکوکا کو چیلنج کرنے والی عرضی کو مسترد کرنے کے طریقہ کو بھی غلط بتایا تھا۔ ایڈوکیٹ مبین سولکر نے مبین شیخ کی جانب سے اپنی بحث میں دلیل دی تھی کہ جس وقت فرد جرم عائد کیا گیا تھا ،اس وقت ملزمین کے ذریعے مکوکا کو چیلنج کرنے والی عرضی التواء میں تھی اس لئے ملزمین کا فرد جرم پر اعتراض نہ کرنا اس بات کا ثبوت نہیں بن جاتا کہ ملزمین کی بات سنی گئی تھی جبکہ قانون کے مطابق  فرد جرم عائد کرنے سے قبل ملزمین کی بات سننا ضروری ہے۔ فریقین کی بحث سننے کے بعد ہائی کورٹ کے ججوں نے کہا کہ وہ اس کیس کے حقائق کی بحث میں نہیں جانا چاہتے البتہ یہ حقیقت ہے کہ ان کی عرضی التواء میں ہونے کے باوجود فرد جرم عائد کیا گیا اور ملزمین کا قیمتی حق خطرے میں ڈالا گیا۔ اس بنیاد پر ہائی کورٹ نے مبین شیخ کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ ٹرائل کورٹ میں مکوکا کو دوبارہ چیلنج کریں اور سیشن کورٹ کو ہدایت دی ہے کہ وہ ۱۶؍ ہفتوں میں اس عرضی پر سماعت کرکے تفصیلی فیصلہ سنائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK