مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ گیان واپی مسجد اور اس کے احاطے کے سروے کا حکم بھی نا انصافی کے زمرے میں آتا ہے
EPAPER
Updated: May 18, 2022, 10:52 AM IST | new Delhi
مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا کہ گیان واپی مسجد اور اس کے احاطے کے سروے کا حکم بھی نا انصافی کے زمرے میں آتا ہے
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے گیان واپی مسجد اور اس کے احاطے کے سروے کے حکم اور اس کی بنیاد پر وضو خانہ کو بند کرنے کی ہدایت پر سخت ردعمل ظاہر کیا اور اسے سراسر ناانصافی پر مبنی قرار دیا گیا اور کہا کہ ملک کے مسلمان اسے ہرگز برداشت نہیں کر سکتے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے پریس کیلئے جاری کردہ بیان میں کہا کہ گیان واپی مسجد کے حوالہ سے موجودہ صورت حال مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہے ۔ گیان واپی ایک مسجد تھی اور تاقیامت مسجد ہی رہے گی۔بیان میں مزید کہا گیا کہ گیان واپی مسجد کو مندر قرار دینے کی کوشش، فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرنے کی ایک سازش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ تاریخی حقائق کے خلاف اور قانون کے مغائر ہے۔۱۹۳۷ء میں دین محمد بنام اسٹیٹ سیکریٹری کیس میں عدالت نے زبانی شہادت اور دستاویزات کی روشنی میں یہ بات طے کر دی تھی کہ یہ پورا احاطہ مسلم وقف کی ملکیت ہے اور مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کا حق ہے۔
بیان کے مطابق، عدالت نے یہ بھی طے کر دیا تھا کہ متنازع اراضی کا کتنا حصہ مسجد ہے اور کتنا حصہ مندر ہے، اسی وقت وضو خانہ کو مسجد کی ملکیت تسلیم کیا گیا۔ پھر۱۹۹۱ء میں پارلیمنٹ سے پلیسز آف ورشپ ایکٹ منظور کیا گیا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ۱۹۴۷ء میں جو عبادت گاہیں جس طرح تھیں ان کو اسی حالت پر قائم رکھا جائے گا۔ ۲۰۱۹ء میں بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے بھی بہت صراحت سے کہا کہ اب تمام عبادت گاہیں اس قانون کے ماتحت ہوں گی اور یہ قانون دستور ہند کی بنیادی روح کے مطابق ہے۔ لیکن ان تمام نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے سروے کا حکم جاری کرنا اور پھر اس کی بنیاد پر وضوخانہ کو بند کرنے کا حکم کھلی زیادتی ہے اور قانون کی خلاف ورزی ہے، جس کی ایک عدالت سے ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی۔ ملک کے مسلمان اور انصاف پسند طبقات اس فیصلےاور ان کوششوں کو کبھی قبول نہیں کریں گے ۔