Inquilab Logo

کورونا وائرس کی وبا کے دوران تارکین وطن کیلئے ٹھوس اقدامات عالمی برادری کی ذمہ داری ہے

Updated: April 04, 2020, 6:24 AM IST | Washington

 محدود وسائل کے ساتھ رہنے والے تارکینِ وطن ان حفاظتی اقدامات پر عمل نہیں کر سکتے جو کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے ناگزیر ہیں ۔دنیا بھر میں لاکھوں کی تارکین وطن کو اب کرونا وائرس کی شکل میں ایک نئے بحران کا سامنا ہے۔

Immigrants. Photo: INN
تارکین وطن۔ تصویر: آئی این این

 محدود وسائل کے ساتھ رہنے والے تارکینِ وطن ان حفاظتی اقدامات پر عمل نہیں کر سکتے جو کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے ناگزیر ہیں ۔دنیا بھر میں لاکھوں کی تارکین وطن کو اب کرونا وائرس کی شکل میں ایک نئے بحران کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق اور امیگریشن کے ماہر اور برطانوی سپریم کورٹ کے وکیل بیرسٹر امجد ملک کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ غریب اور امیر ملکوں کی حکمتوں کو جھنجھوڑے اور انہیں یونیفائیڈ ریسپانس کی طرف لیکر جائے، تاکہ بین الاقوامی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم قائم کیا جا سکے۔ بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کا معاملہ تپ دق، پولیو اور ایڈز سے بڑھ کر خطرناک ہے اور ویسے ہی جواب کا متقاضی ہے۔دنیا بھر میں حکومتیں اپنے عوام کے تحفظ کیلئے ضروری اقدامات کر رہی ہیں ۔ لیکن، یہ پناہ گزیں جنہیں سب سے زیادہ خطرہ ہے اس توجہ سے محروم ہیں جو ان کی بقا کیلئے درکار ہے۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ عالمی برادری انسانی بنیادوں پر اس محروم طبقے کے تئیں اپنا فرض پورا کرے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو غطریس نے کرونا وائرس کو جنگ عظیم دوم کے بعد انسانیت کے لیے بدترین بحران قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ ایک بڑا عالمی ادارہ ہونے کی حیثیت سے ان لوگوں کے لئے کیا کر سکتا ہے اور اس کے منشور کے تحت ان تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے حقوق کیا ہیں ؟لندن میں مقیم انسانی حقوق کے کارکن بیرسٹر امجد ملک کا کہناہے کہ ان کی رائے میں ہر وہ شخص جو رنگ، نسل، مذہب، قومیت یا پھر اپنے مخصوص سیاسی اور مذہبی نظریات یا کسی مخصوص سماجی گروپ کا حصہ ہونے کی وجہ سے جبر اور ایذا سے بچنے کے لئے اپنے ملک کو چھوڑتا ہے، وہ ۱۹۵۱؍ جنیوا کنونشن کے تحت رکن ملکوں میں پناہ حاصل کر سکتا ہے۔کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کو غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہی غیر معمولی حالات غیر معمولی اقدامات کا تقاضہ کرتے ہیں ۔بیرسٹر ملک بتاتے ہیں کہ بین الاقوامی قانون کے تحت رکن ملک اس بات کے پابند ہیں کہ وہ جبر سے بچنے کیلئے پناہ کے متلاشی افراد کو ان ملکوں میں واپس نہ بھیجیں جہاں اس وبا کا زور ہے، کیونکہ یورپین کنونشن آن ہیومن رائیٹس ۱۹۵۰ءکی شق ۳؍ کے تحت یہ غیر انسانی اور ذلت آمیز رویہ ہو گا۔اگر پناہ گزینوں کو موت کے حقیقی خطرے سے دوچار کر دیا جائے، یہ پناہ گزیں اپنے میزبان ملکوں کے رحم و کرم پر ہیں ۔ لیکن، منشور کے تحت میزبان ملک ان کا خیال رکھنے کے پابند ضرور ہیں ۔
 اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو غطریس نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے مقابلے کیلئے مؤثر اقدامات صرف اسی صورت میں اٹھائے جا سکتے ہیں ، جب عالمی برادری یک جہتی کا مظاہرہ کرے، کیونکہ اس وقت انسانیت کو ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔اس سوال پر کہ ان حالات میں اس عالمی بحران سے نمٹنےکے لئے اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کا کردار کیا ہونا چاہئے، بیرسٹر ملک نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کو آگے بڑھ کر بین الاقوامی ٹیسٹنگ کی ذمہ داری سنبھال لینی چاہئے۔ کئی غیر ذمہ دار حکومتیں اور ادارے ابھی بھی نمبر گیم میں الجھے ہوئے ہیں اور اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ اقتصادی نقصان کے تناظر میں کاروبار زندگی بند نہ کرنا پڑے۔ انہیں ہوش میں آنا چاہئے، کیونکہ جانی نقصان اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔اقوامِ متحدہ نے وائرس سے متاثرہ غریب اور ترقی پذیر ملکوں کی معاشی مدد کیلئے ایک فنڈ قائم کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ سیکریٹری جنرل انتونیو غطریس کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی ۷۵؍ سالہ تاریخ میں کورونا وائرس سب سے سخت امتحان ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK