Inquilab Logo

کرلا مغرب کے ۲؍وارڈوں کے نمبرہی تبدیل نہیں ہوئے بلکہ علاقے بھی کم کردیئے گئے ہیں

Updated: June 08, 2022, 12:52 AM IST | Mumbai

وارڈ نمبر ۱۶۵؍ اب ۱۷۲؍ جبکہ وارڈ نمبر ۱۵۹؍اب وارڈ نمبر ۱۷۳؍ ہوگیا ہے ۔اسی طرح پہلا وارڈ جینٹس سے لیڈیز اور دوسرا لیڈیز سے جینٹس ہوگیا ہے

The ward number of the ward in which the pipe road area falls has changed.
پائپ روڈ علاقہ جس وارڈ میں آتا ہے ، اس وارڈ کا نمبر تبدیل ہوگیا ہے۔ (تصویر: انقلاب)

 کرلامغرب کا وارڈ نمبر ۱۶۵؍  اب ۱۷۲؍ ہوگیا ہے۔ یہ وارڈ پہلے جینٹس تھا لیکن اب اسے  خواتین کیلئے مختص کردیاگیا ہے ۔ دوسری طرف  وارڈ نمبر ۱۵۹؍  اب وارڈ نمبر ۱۷۳ ؍ ہوگیا ہے اوراسے لیڈیز سے جینٹس وارڈ کر دیا گیا ہے۔ ان وارڈوں میں  اشرف اعظمی اور ان کی بیوی دلشاد  کارپوریٹر تھیں۔
  اشرف اعظمی نے وارڈوں کی توسیع اور حد بندی پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ وارڈوں کی حد بندی کرتے وقت الیکشن کمیشن کی گائیڈ لائن کو مد نظر نہیں رکھا گیا  جس کی وجہ سے نئے وارڈ کی تشکیل یا حد بندی  سے کئی علاقے وارڈ سے نکال دیئے گئے جس کی وجہ سے ووٹروں کی تعداد کم ہوگئی ۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ میں اور میری بیوی مذکورہ بالا جن دو وارڈوں سے میونسپل انتخابات میں حصہ لیں گے،  ان میں کرلا ہلاؤ پل ، ہال روڈ ، شالیمار ہوٹل کا علاقہ ، پائپ لائن اور کرشچین  گاؤں کا علاقہ ،پائپ روڈ ، نیو مل روڈ ، ایل آئی جی کالونی ،  ونو با بھاوے نگر جیسے علاقے شامل ہیں ، دونوں ہی وارڈوں میں علاقے کم کرنے سے ۳؍ سے ۴؍ ہزار  ووٹرس کم ہوئے ہیں ۔ جو رائے دہندگان کم ہوئے ہیں،  ان میں ہندو، مسلم ، سکھ ، عیسائی سبھی سماج کے ووٹرس شامل ہیں ۔اب جہاں ۲۲۷؍ وارڈوں کے بجائے ۲۳۶؍ وراڈوں پر انتخابات ہوں گے ، اس سے یقینی طور پرکسی بھی پارٹی کے عوامی نمائند ے کو مزید بہتر طریقہ سے بنیادی سہولت فراہم کرنے کا زیادہ موقع ملے گا۔ جہاں تک حد بندی اور وارڈوں کی توسیع سے مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم کی بات ہے تو اس سے وارڈوں میں ہونے والی تبدیلی سے امیدوار کو مسئلہ تو ضرور ہوگا لیکن اس سے بہتر یہ ہوگا کہ مسلم علاقوں میں سیاسی پارٹیاں ٹکٹ دیتے وقت مسلم نمائندے کو ترجیح دیں تو نہ صرف کسی بھی سیاسی پارٹی کے عوامی نمائندے کی تعداد میں اضافہ ہوگا بلکہ بھگوا تنظیم کی سازشوں کو بھی ناکام بنایا جاسکتا ہے ۔
  اشرف اعظمی کےمطابق بی جے پی مسلسل مسلم لیڈر شپ کو حاشیہ پر لانے کی کوشش میں سرگرم ہے اس لئے سیکولر پارٹیوں کو چاہئے کہ وہ بھگوا پارٹیوں کی نہج پر کام نہ کریں ۔ اگر سیکولر پارٹیو ں نے مسلم علاقوں سے صحیح مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا تو ممبئی میں ۴۵؍ سے ۵۰؍ امیدوار موجودہ انتخابات میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔اب رہی بات وارڈوں کی توسیع اور حد بندی کی تو اس میں اکثر اس جینٹس  امیدوار کا نقصان ہوا ہے جن کے علاقوں میں بعض مقامات پر تو تمام یا اکثر سیٹیں لیڈیز ہوگئی ہیں ۔ اس تبدیلی سے مرد امیدوار وںکیلئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہ تو اپنے اور نہ ہی آس پاس کے وارڈوں سے الیکشن لڑ سکتےہیں ۔ بحالت مجبوری انہیں اپنے علاقے اور اپنی پارٹی سے لیڈیز امیدوار کا انتخاب کرنا ہوگا ۔وہیں میں اور میری بیوی اس معاملہ میں خوش قسمت رہے ہیں کہ ہم دونوں کا وہی وارڈ لیڈیز سے جینٹس اور جینٹس سے لیڈیز ہوگیا ہے جہاں کے ہم عوامی نمائندے ہیں اور عوام سے ہمارا رابطہ ہے ۔بہر حال وارڈ کی توسیع اور حد بندی سے عوام کو ہی بہتر اور زیادہ بنیادی سہولتیں ملنے کی امید ہے کیونکہ اب ۲۲۷؍ کے بجائے ۲۳۶؍ عوامی نمائندے شہریوں کی خدمت کر سکیں گے ۔

kurla Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK