Inquilab Logo

ندیوں سے لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ، تشویش اور خوف میں اضافہ

Updated: May 13, 2021, 7:41 AM IST | New Delhi

یوپی کے متعدد شہروں کے بعد بہار کے بکسر اور مدھیہ پردیش کی کچھ ندیوں میں لاشیں پائی گئیں

Local authorities in Baksar search for bodies in the river.Picture:PTI
بکسر میں مقامی انتظامیہ ندی میں لاشیں تلاش کرتے ہوئے۔ تصویرپی ٹی آئی

 کورونا  کے قہر کی وجہ سے  شمالی ہند کی بیشتر ریاستوں میں حالات دگرگوں ہیں۔ یہاں  نہ بیڈ دستیاب ہیں اور نہ  آکسیجن مل رہی ہے جبکہ شمشان میں لکڑیاں بھی دستیاب نہیں ہو پا رہی ہیں۔ اسی وجہ سے بہت لوگ کورونا سے  فوت ہونے والے افراد کی لاشوں کو ندی میں بہارہے ہیں۔ بہار کےبکسر ضلع میں چوسہ شمشان کے پاس گنگا ندی سے برآمددرجنوں نامعلوم لاشیں ملنے سے ہر طرف سنسنی پھیل گئی ہے۔ ادھر ماہرین اس طرح کی لاشوں کو ندی میں پھینکے جانے کو بے حد تشویشناک مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے انفیکشن کا خطرہ اور بڑھ سکتا ہے۔
 دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق بچوں کے امراض کے ماہرا ور نیشنل ہیلتھ مشن کے آزاد مانیٹر ڈاکٹر کے آر انٹونی نے کووڈ۱۹؍ متاثرہ لا شوں کو ندی میں پھینکے جانے کو خطرناک بتایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کووڈ ۱۹؍متاثرہ مریض کےبدن  سے نکلنے والے ڈراپ لیٹس کھلےماحول میں اگر دھوپ ہوتو ۵۔۶؍ گھنٹے میں سوکھ جاتے ہیں اور وائرس مر جاتا ہے لیکن اگر وائرس ایسی جگہ پر ہو جہاں نمی ہےتو وہ کئی گھنٹوں تک زندہ رہتا ہے۔یہ بات سچ ہے کہ کووڈ ۱۹؍انفیکشن  کے شکارشخص کی موت ہو جانے پر اس کے بدن میں موجود وائرس    ڈراپ لیٹس کے ذریعے دوسرے لوگوں کے بدن میں نہیں پہنچے گا کیونکہ مرنے والے کی سانس رک جاتی ہے لیکن مرنے والے کے بدن کے ٹشوزمیں وائرس گھنٹوں زندہ رہ سکتا ہے۔
 ڈاکٹر انٹونی نے  بتایا کہ ‘ایسی حالت میں اگر کوئی کووڈ۱۹؍متاثرہ لاش ندی میں پھینک دی جاتی ہے اور اس ندی کا پانی ٹھہرا ہوا ہے تو جو لوگ پانی کا استعمال نہانے  اورپینے میں کرتے ہیں، ان میں انفیکشن کا خطرہ رہتا ہے۔ ہاں، اگر پانی میں بہاؤ بہت تیز ہے تو وائرس اور دوسری آلودگی پانی میں گھل جائیں گی لیکن گنگا کے پانی میں ٹھہراؤ ہے۔ اسی لئے یہ خطرہ زیادہ ہے۔ 
  واضح رہےکہ اتر پردیش  اور بہار  میں اتوار اور پیر کے روز گنگا میں درجنوں لاشیں ملی تھیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ کا انکشاف نہیں ہو سکا ہے لیکن یہ اندازہ لگانامشکل نہیں ہے کہ یہ لاشیں کہاں سے آئی ہوں گی اور انہیں کیوں یہاں ڈال دیا گیا ہے۔
  اس بارے میں بکسر کے سول سرجن ڈاکٹر جتندر ناتھ نے بتایا کہ لاشیں کافی سڑ چکی تھیں،اس لیےموت کی وجہ کا انکشاف نہیں ہو سکا ہے۔مقامی  لوگوں کا کہنا ہے کہ لاشوں کو جلانے کے  لئے لکڑیاں کم پڑ رہی ہیں جس وجہ سے بازار میں ان کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ لوگوں کو آسانی سے لکڑی مل بھی نہیں رہی ہے، اسی لیے صرف مکھ اگنی (آگ) دےکر  لاشوں کو ندی میں بہا یا جارہا ہے۔  واضح رہے کہ بکسر ضلع کے کنارے سے ہوکر گنگا ندی بنگال میں داخل ہوتی ہے۔ بکسر میں سب سے بڑا شمشان گھاٹ چرترون شمشان گھاٹ ہے۔ اسی شمشان گھاٹ پر کووڈ۱۹؍متاثرہ لا شوں کے آخری رسومات کی ادائیگی کی جاتی ہے۔اس کے علاوہ لوگ تقریباً ۱۰۰؍کلومیٹر دور اتر پردیش کے وارانسی میں بھی لاشوں کےآخری رسوم کے  لئے جاتے ہیں۔ مقامی  لوگوں کے مطابق بکسر سے متصل روہتاس ضلع کے لوگ بھی چرترون گھاٹ اور چوسہ گھاٹ پر  آخری رسوم کے  لئے آتے ہیں۔    بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے لاشیں ملنے پر سخت رنج والم کا اظہارکیا اور کہا کہ وہ اس معاملے کی انکوائری کروائیں گے یہ لاشیں کہاں سے آرہی ہیں  اور اس کے لئے کون لوگ ذمہ دار ہیں۔ اس سلسلے میں یوپی انتظامیہ نے بھی  کہا ہے کہ وہ انکوائری کروائے گی اور خاطیوں کو سزا بھی دی جائے گی۔ 
  دوسری طرف بہار کے بعد اب مدھیہ پردیش کی کچھ ندیوں  میںکورونا سے ہلاک ہونے والوں کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق مدھیہ پردیش کی جن ندیوں سے لاشیں برآمد ہوئی ہیں ان ندیوں کا پانی لوگ پینے کے  لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اس خبر سے پورے مدھیہ پردیش میں سنسنی پھیل گئی ہے اور انتظامیہ بھی حرکت میں آگیاہے ۔ بتایا جارہا ہے کہ یہ ندیاں بڑی ندیاں نہیں ہیں لیکن ان کا پانی استعمال کے لئے لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے تشویش زیادہ ہے۔ بہر حال انتظامیہ نے معاملے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے جانچ شروع کردی ہے۔  ایک اندازے کے مطابق گزشتہ کچھ دنوں میں صرف گنگا ندی میں ۱۰۰؍ سے زائدد لاشیں پائی گئی ہیں۔ 

baksar Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK