Inquilab Logo

ریاست کےخصوصی اختیارات کو ختم کرنے کا مقصد جموں کشمیر کو لوٹنا تھا

Updated: July 12, 2021, 11:46 PM IST | jammu

پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی کی میڈیا سے گفتگو،کشمیر کےسرکاری ملازمین کی برطرفی کے حوالے سے مرکز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ باپ کی سزا بیٹے کو اور بیٹے کی سزا باپ کو نہیں دی جا سکتی۔دربامو کی روایت کے خاتمے سے متعلق فرمان پر بھی تنقید کی، کہا: اس کا مقصد دونوں خطوں میں تال میل پیدا کرنا تھاجسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے، مزید کہا کہ ایسا کرنے سے کافی نقصان ہوگا

Addressing PDP chief Mehbooba Mufti media, other party leaders were also present on the occasion.Picture:PTI
پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی کامیڈیا سے خطاب، اس موقع پر پارٹی کے دیگر لیڈران بھی موجود تھے

 پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ مرکزی سرکار کی طرف سے دفعہ۳۷۰؍ کو ختم کرنے کا مقصد جموںکشمیر کو لوٹنا تھا۔انہوں نے کہا کہ دفعہ۳۷۰؍ اور۳۵؍ اے کسی دوسرے ملک نے جموںکشمیر کو نہیں دیئے تھے بلکہ ان قوانین کو مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست کے تمام لوگوں کی شناخت کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے لایا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت آئے دن جموںکشمیر کیلئے نئے نئے فرامین جاری کرتی ہے۔ انہوں نے  ان باتوں کا اظہار یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔
 خیال رہے کہ ایک فرمان کے تحت ریاستی انتظامیہ نے جموں کشمیر کے ۱۱؍ سرکاری ملازمین کو محض اسلئے برطرف کردیاکہ ایک الزام کے تحت ان کے بیٹے جنگجوئیت کی طرف مائل ہیں یا پھر ان کے اعانت کار ہیں۔ پی ڈی پی سربراہ نےکہا کہ انتظامیہ کے اس فیصلے  کی وجہ سے عوام میں کافی غم و غصے کی لہر ہے۔
   انہوں نے کشمیرکے سرکاری ملازمین کو’ملک کی سلامتی کے مفاد میں‘ ملازمت سے فارغ کرنے کی حکومتی کارروائی کو سراسر ظلم قرار دیتے ہوئے کہا کہ باپ کی سزا بیٹے کو اور بیٹے کی سزا باپ کو نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ کے پاس بیٹے کے خلاف ثبوت ہیں تو آپ اس کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں لیکن اس کا جواز کہاں سے آگیا کہ آپ اس کے باپ کو ملازمت سے برطرف کردیں۔‘‘ انہوں  نے کہا کہ `یہ صرف۱۱؍ لوگ نہیں ہیں، جن کو برطرف کیا گیا ہے بلکہ ریاستی انتظامیہ نے اب تک۲۰؍  سے۲۵؍ ملازمین کو برطرف کیا ہے۔ حکومت کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انکوائری جاری ہے لیکن جرم ثابت نہیں ہوا ہے، ایسے میں آپ کیسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں شخص مجرم ہے۔
 انہوں نے کہاکہ میں گزشتہ کچھ دنوں سے یہاں کئی وفود سے ملتی رہی ہوں۔اس دوران مجھے معلوم ہوا کہ یہاں مرکزی حکومت نے  لوگوں کوبتایا تھا کہ دفعہ۳۷۰؍ ہٹانے کے بعد جموںکشمیر میں دودھ کی ندیاں بہیں گی اور ہر طرف شہد ہی شہد ہوگا لیکن اس کے مقابلے میں  یہاں لوگوں کے مشکلات مزید بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے لوگوں کی اقتصادی حالت روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہے اور ہماری سماجی ساخت پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے یہ سب حکومت کے آئے دن کے نئے نئے فرامین کی وجہ سے  ہورہے ہیں۔
  محبوبہ مفتی نے  دربامو کی روایت کا خاتمے سے متعلق فرمان پر بھی تنقید کی۔انہوں نے کہا کہ اس روایت کی بنیاد مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں پڑی تھی۔اس میں اقتصادیات کی بات نہیں تھی بلکہ وہ چاہتے تھے کہ سردیوں میں لوگ جموں جائیں تاکہ لوگوں کی آپس میں بات چیت ہو، یہ بھائی چارے کی ایک بنیاد تھی۔
  پی ڈی پی سربراہ نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جموں ایک ایسا خطہ ہے جہاں مختلف مذہبوں اور ذاتوں کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں اور مجھے فخر ہے کہ یہ سب لوگ مل جل بھائی چارے کے ساتھ  رہتے ہیں لیکن ان میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جموں مندروں کا شہر ہے لیکن اسے اب شراب کا شہر بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جس کا فائدہ یہاں کے دکانداروں کو نہیں بلکہ دوسرے علاقوں کے دکانداروں کو مل رہا ہے۔
  ریاست کی سابق وزیراعلیٰ نے کہا کہ مرکز کے ذریعہ ان خصوصی دفعات کے خاتمے کا مقصد جموںکشمیر کو لوٹنا تھا اور آج باجری جیسی معمولی چیزوں کو لوٹا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان دفعات کی تنیسخ کے بعد کہا جا رہا تھا کہ اب جموںکشمیر ملک کے ساتھ مل گیا، گویا یہ پہلے ملک کے ساتھ ملا ہوا نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ پہلے کہا جا رہا تھا کہ جموںکشمیر پسماندہ ہے جبکہ ہم کئی علاقوں سے بہت آگے ہیں لیکن اگر ہمارے اقتصادیات پر اسی طرح حملے جاری رہے تو ہماری حالت بدتر ہوسکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK