Inquilab Logo

جموں میں تین دن میں لگاتار تیسرا ڈرون ، حکومت اور تفتیشی ایجنسیاں الرٹ

Updated: June 30, 2021, 1:09 AM IST | jammu

ملک میں پہلی بار ڈرون حملوں سے حکومت کو تشویش،مرکزی وزارت داخلہ نے مشتبہ ڈرون سے متعلق معاملے کی تفتیش کی ذمہ داری این آئی اے کو سونپی، نیشنل سیکوریٹی گارڈ اور دہلی پولیس کی اسپیشل سیل بھی جموں پہنچی اور ایئر فورس اسٹیشن کا دورہ کیا،این ایس جی کا دعویٰ، یہ ڈرون پاکستان سے کنٹرول ہورہے ہیں، کشمیر پولیس کا جلد ہی معاملے کی تہہ تک پہنچ جانے اور دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے عزم کا اظہار

A team of Delhi Special Cell along with NSG also reached Jammu Air Force Station to assess the situation. (Photo: PTI)
حالات کا جائزہ لینے کیلئے این ایس جی کے ساتھ دہلی کی اسپیشل سیل کی ایک ٹیم بھی جموں ایئر فورس اسٹیشن پہنچی (تصویر: پی ٹی آئی)

 جموں میں تین دن سے لگاتار مشتبہ ڈرون کے نظر آنے کی وجہ سے ایک جانب جہاں حکومت نے تشویش اور فکر مندی کااظہار کیا ہے، وہیں اس نے اس معاملے میں تفتیشی ایجنسیوں کو بھی الرٹ کردیا ہے۔ ملک میں پہلی مرتبہ ڈرون سے حملے ہوئے ہیں،اسلئے سیکوریٹی ایجنسیاں پوری طرح  بیدار ہوگئی ہیں۔ مرکزی وزارت داخلہ نے معاملے کی تفتیش کیلئے این آئی اے کو ذمہ داری سونپ دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی نیشنل سیکوریٹی گارڈ اور دہلی پولیس کی اسپیشل سیل بھی معاملے کی تحقیقات کیلئے جموں پہنچ گئی ہے۔ این ایس جی نے اس دوران الزام عائد کیا کہ یہ تمام ڈرونز  پاکستان سے کنٹرول کئے جارہے ہیں۔کشمیر پولیس نے معاملے سے نمٹنے کیلئے اپنے عزم کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ’ ڈرون تھرٹ‘ ایک ’تکنیکی تھرٹ‘ ہے،اسلئے اس کا جواب تکنیکی طور ہی دیا جائے گا۔
 اطلاعات کے مطابق فوجی جوانوں نے جموں شہر کے مضافاتی علاقہ رتنوچک کنجونی کے فوجی علاقے میں رات کے وقت ایک اور ڈرون کو تین مرتبہ گردش کرتے ہوئے دیکھا۔ اس سے قبل جوانوں نے پیر کی شب رتنوچک – کالوچک کے فوجی علاقے میں ۲؍ڈرونز کو دیکھا تھا اور انہیں واپس بھگا دیا تھا۔اس سے پہلے سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب میں  جموں ایئر فورس اسٹیشن پر ایک مشتبہ ڈرون کے ذریعے دو بم گرائے گئے تھے جس کے نتیجے میں۲؍ آئی اے ایف اہلکار زخمی ہوئے تھے جبکہ ایک عمارت کو جزوی طور پر نقصان پہنچا تھا۔
 فوجی ذرائع  نے بتایا کہ اس مشتبہ ڈرون کوپہلے رتنوچک میں رات کے ایک بجکر ۸؍ منٹ پر دیکھا گیا، اس کے بعد کنجونی میں ۳؍ بجکر ۹؍ منٹ اور پھر اسی مقام پر ۴؍ بجکر۱۹؍ منٹ پر دیکھا گیا۔مذکورہ ذرائع نے بتایا کہ فوجی جوانوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور ڈرون واپس چلا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد علاقے کو محاصرے میں لے لیا گیا۔
  اس واقعے کے بعد حکومت پوری طرح سنجیدہ ہوگئی ہے اور اس نے معاملے کی جانچ کیلئے تفتیشی ایجنسیوں کو الرٹ کردیا ہے۔لگاتار تیسرے دن ڈرون نظر آنے کے بعد مرکزی وزارت داخلہ نے معاملے کی  این آئی اے کے حوالے کردی ہے۔اس سے قبل  این ایس جی اور این آئی اے مشترکہ طور پر اس  واقعہ کی تحقیقات کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی جموں پولیس نے دہشت گردی سے متعلق دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی  ہے۔اس حملے کی تحقیقات کرنے والی ایجنسیوں نےپیرکو کہا تھا کہ اس میں لشکر طیبہ کاہاتھ ہوسکتا ہے۔ آر ڈی ایکس کے استعمال کے پیش نظر پاکستان میں فعال عناصر کے ملوث ہونے کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ انتظامیہ اس معاملے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھنا چاہتی، اسلئے اس کی ہر  پہلو سے جانچ ہورہی ہے۔اسی کوشش کے تحت  این ایس جی کے ساتھ دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کی ایک ٹیم بھی  منگل کو جموں ایئر فورس اسٹیشن پر ہونے والے حملے کی تفتیش کیلئے پہنچ گئی ہے۔
 کشمیر پولیس نے اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے اور دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُس کو اُسی انداز میں جواب دیا جائے گا۔ کشمیر زون پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے کہا ہے کہ’ڈرون تھرٹ‘ ایک ’تکنیکی تھرٹ‘ ہے،اسلئے اس کا جواب تکنیکی طور پر ہی دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم نے ایک میٹنگ بھی کی اور ہم نے پوری تیاری بھی کرلی ہے۔
  انسپکٹر جنرل نے ان باتوں کا اظہار منگل کو یہاں پولیس کنٹرول روم میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون ایک سنجیدہ اور ٹیکنالوجیکل تھرٹ ہے، اسلئے ہم اس کا جواب ٹیکنالوجی کے ذریعے  ہی دیں گے۔
  خیال رہے کہ ملک میں یہ ڈرون  سے پہلا حملہ ہے۔ سنیچر اور اتوار کی درمیان رات میں ڈرون کے ذریعے دو آئی ای ڈی ایئر بیس کے اندر گرا دی گئی تھیں۔ نقصان زیادہ نہیں ہوا لیکن چونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ تھا، اسلئے تشویش لازمی تھی۔یہ دھماکہ ’انڈین ایئر کرافٹ‘ کے قریب ہی ہوا تھا۔ یہ جگہ بین الاقوامی سرحد سے محض ۱۴؍کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK