Inquilab Logo

ڈاکٹروں کی ہڑتال کا آج ۱۴؍ واں دن، مزید کئی تنظیمیں شامل

Updated: December 30, 2021, 9:11 AM IST | new Delhi

ملک کے کئی بڑے اسپتالوں میں طبی سہولیات بری طرح متاثر، مریضوں کو شدید دشواریوں کا سامنا، احتجاج کی حمایت میں سپریم کورٹ کومکتوب، از خود نوٹس لینے کی اپیل

Doctors protest against the brutal baton charge of the Union Ministry of Health and Delhi Police in Delhi. (PTI)
دہلی میں ڈاکٹر مرکزی وزارت صحت اور دہلی پولیس کے ظالمانہ لاٹھی چارج کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے۔(پی ٹی آئی)

:  نیٹ پوسٹ گریجویشن  کی کونسلنگ میں  تاخیر کے خلاف ریسیڈنٹ  ڈاکٹروں کی ہڑتال کو بدھ کو ۱۳؍ دن مکمل ہوگئے جبکہ حکومت اور مظاہرین کے درمیان تعطل کے سبب ہڑتال کے   جلد ختم ہونے کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔ ایسے میں بطور خاص دہلی اور عمومی طورپر  پورے ملک کے سرکاری اسپتالوں  میں طبی سہولیات  بری طرح متاثر ہیں۔ 
پولیس کی کارروائی نے آگ میں گھی کا کام کیا
  بدھ کو کئی دیگر اسپتالوں کے ریسیڈنٹ ڈاکٹروں  کے احتجاج میں شامل ہوجانے کے بعد  احتجاج میں شدت آگئی ہے۔  احتجاج میں شدت  کی بڑی وجہ مظاہرہ  کے خلاف پیر کی شام  ہونے والی پولیس کی کارروائی ہے۔ پولیس نے ڈاکٹروں   کو بری طرح پیٹا جس کے بعد ان کے موقف میں  مزید سختی آئی اور منگل کو وزیر صحت سے ملاقات کےبعد بھی انہوں  نے مطالبہ منظور ہونےسے قبل اپنا احتجاج واپس لینے سے انکار کردیا۔ 
مزید کئی اسپتالوں کے ڈاکٹر احتجاج میں شامل
 دہلی میں مرکز کے زیر انتظام چلنے والے  ۳؍ بڑے اسپتالوں صفدر جنگ، رام منوہر لوہیا  اور لیڈی ہارڈنگ  اسپتال اور دہلی حکومت کے زیر انتظام چلنے والے کئی اسپتالوں میں طبی سہولیات پہلے ہی بری طرح متاثر تھیں اب راجیو گاندھی سپر  اسپیشلٹی اسپتال  مزید کئی اسپتالوں کے ریسڈنٹ ڈاکٹروں نے ہڑتال میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔  بدھ کو راجیو گاندھی اسپتال کے  ریسڈنٹ ڈاکٹروں کی تنظیم نے  احتجاج میں شامل ہونے اور  اسپتال سے ’’اپنی خدمات  واپس لینے‘‘ کا اعلان کیا۔ انہوں نے احتجاج میں شمولیت کی وجہ  پولیس ایکشن قراردیا ہےاور مطالبہ کیا ہے کہ نیٹ پی جی کونسلنگ جلد از جلد کرائی جائے۔ دہلی حکومت کے زیر انتظام چلنے والا یہ اسپتال شہر میں کورونا کے علاج کے کلیدی مراکز میں شامل ہے۔  اسپتال کی او پی ڈی میں یومیہ ۹؍سو سے ۲؍ ہزار مریض  آتے ہیں۔ انتظامیہ نے سینئر اور جونیئر ریسیڈنٹ ڈاکٹروں کی ہڑال سے نمٹنے کیلئے کنسلٹنٹ  ڈاکٹروں  کی خدمات حاصل کی ہیں۔ اسی طرح  بچوں کے علاج کیلئے مختص چاچا نہرو بال چکتسالیہ اور ناردرن ریلوے کے سینٹرل اسپتال کے ڈاکٹر بھی ہڑتال میں شامل ہوگئے ہیں۔یہ دونوں بھی دہلی کے مصروف ترین اسپتالوں   میں شامل ہیں۔
 مریضوں کو شدید دقتوں کا سامنا
 ریسڈنٹ ڈاکٹروں کی اس ہڑال کی وجہ سے ملک بھر میں سرکاری اسپتالوں میں علاج و معالجہ متاثر ہوا ہے اور مریضوں کو شدید دقتوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ رام منوہر لوہیا اسپتال میں  اپنے بیٹے کو لے کر پہنچنے والی ایک خاتون نےبتایا کہ ’’میرا بیٹا گردے کے عارضہ میں مبتلا ہے، ڈاکٹروں     کچھ جانچیں تجویز کی ہیں۔ آج میرے بچے کی آنکھوں کی جانچ ہونی تھی جس کا اپائنٹمنٹ بھی مل گیا تھا  مگر ہڑتال کی وجہ سے اب ٹیسٹ نہیں ہورہا ہے۔ ‘‘ انہوں نےبتایا کہ’’میرے بیٹے کو جی ٹی بی اسپتال سے اس اسپتال بھیجا گیاتھا۔ ‘‘  دہلی کے روہنی     علاقے میں  رہنےوالے ایک شخص نےبتایا کہ’’میں اپنی والدہ کو دکھانے لایاتھا جنہیں  ۸؍ ماہ سے بخار آرہاہے۔ اسپتال پہنچا تو یہاں  انہیں  دیکھنے کیلئے کوئی ڈاکٹر ہی نہیں ہے۔‘‘
 احتجاج کا اثر قومی سطح پر شدید ہوسکتاہے
 اس بیچ فیڈریشن آف آل انڈیا میڈیکل اسوسی ایشن  نے ڈاکٹروں پر پولیس کے ظالمانہ لاٹھی چارج اور نیٹ پی جی کی کونسل میں تاخیر کے خلاف  بدھ کی صبح ۸؍ بجے سے تمام طبی خدمات بند کرنے کا نعرہ دیا ہے۔ اس سے قبل انڈین میڈیکل  اسوسی ایشن ۲۴؍ دسمبر کو مکتوب لکھ کر مسئلہ حل کرنے کی گزارش کرچکاہے۔ وزیراعظم کو متوجہ کیاگیا ہے کہ کورونا کی تیسری لہر کے پیش نظر ڈاکٹروں کی افرادی قوت بڑھانے کی ضرورت ہے اوراس کیلئے نیٹ پی جی کونسلنگ جلد از جلد منعقد ہونی چاہئے۔
سپریم کورٹ کو مکتوب،ا ز خود نوٹس لینے کی اپیل
  مظاہرہ میں شامل ڈاکٹروں نے مکتوب کی شکل میں سپریم کورٹ کو ایک پٹیشن روانہ کیا ہےا ور اس سے اپیل کی ہے کہ نیٹ پی جی کی کونسلنگ میں تاخری کی وجہ سے ڈاکٹروں کے مسائل کا وہ از خود نوٹس لے اور جلد از جلد شنوائی شروع کرے۔ ایڈوکیٹ   ونیت جندل کی جانب سے بھیجے گئے اس مکتوب میں کورٹ کو متوجہ کیاگیاہے کہ یہ احتجاج  اس لئے ہورہاہے کہ نیٹ پی جی کونسلنگ کے تعلق سے وزارت صحت نے کوئی پختہ قدم نہیں  اٹھایاہے۔ عرضی گزار نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈاکٹروں  کے مسائل کو جلد از جلد حل کرنے کی جانب قدم اٹھائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK