Inquilab Logo

ادلب بحران کے خاتمے پرٹرمپ اوراردگا ن کا اتفاق

Updated: February 17, 2020, 2:31 PM IST | Agency | Washington/ Ankara

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اوران کے ترک ہم منصب رجب طیب اردگان نے شامی صوبہ ادلب کے بحران کے خاتمے اتفاق کیا ہے۔ اس سلسلے میں دونوں لیڈروں کے بات چیت ہوئی۔

بحران  زدہ ادلب کی ٹوٹی پھوٹی عمارتوں کے درمیان  اس طرح کی دکانیں سج رہی ہیں۔ تصویر : پی ٹی آئی
بحران زدہ ادلب کی ٹوٹی پھوٹی عمارتوں کے درمیان اس طرح کی دکانیں سج رہی ہیں۔ تصویر : پی ٹی آئی

 واشنگٹن/ انقرہ : امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے ترک ہم منصب رجب طیب اردگان نے  شامی صوبہ ادلب کے بحران کے خاتمے اتفاق کیا ہے۔ اس سلسلے میں دونوں لیڈروں کے  بات چیت ہوئی۔  میڈیا رپورٹس کے مطابق سنیچر  کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ترک صدر رجب طیب اردگان کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے جس میں دونوں نے شامی صوبہ ادلب میں جاری بحران کے بلاتاخیر خاتمے پر تبادلۂ خیال کیا ۔ ترک صدر رجب طیب اردگان کے دفترسے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ترک اور امریکی صدور کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونک بات چیت میں شامی صوبہ ادلب میں جاری بحران کے جلد از جلد خاتمے کے ممکنہ طریقوں پر غور کیا گیا ہے۔ اس بیان کے مطابق صدر اردوگان اور صدر ٹرمپ نے اس بات پر زور دیاکہ دمشق حکومت کی طرف سے ادلب میں کئے جانے والے تازہ حملے ناقابل قبول ہیں۔ 
 دوسری طرف جرمن شہر میونخ میں جاری بین الاقوامی سیکوریٹی کانفرنس میں شریک ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلونے میڈیاکو بتایاکہ صدر ٹرمپ اور صدر اردوگان کے درمیان ہونے والی بات چیت میں امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے امن منصوبے پر بھی بات چیت ہوئی۔ اس سے قبل ترک وزیر خارجہ نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میںشامی صوبہ ادلب کی خراب صورتحال  زیر بحث رہی۔ 
 ترک وزیر خارجہ چاؤش اوغلو  نے بتایا  کہ  شام کے معاملے پر ترکی اور روس کے اختلاف سے ان دونوں ممالک کے   تعلقات کو متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ ترک  نشریاتی ادارے این ٹی وی نے مولود چاؤش اوغلو کے حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ ادلب کی صورتحال سے ایس۴۰۰؍میزائلوں کی خرید کا معاہدہ متاثر نہیں ہو گا۔ سہ روزہ میونخ سیکوریٹی کانفرنس اتوار کو ختم ہوئی۔ 
  دوسری جانب ترکی کے صدر رجب طیب  اردگان نے کہا : ’’جو ہم سے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ شام کی زمین ہے، آپ وہاں کیسے داخل ہو رہے ہیں؟ ان کے لئے ہمارا جواب یہ ہے کہ ترک فوجیوں کی شام میں موجودگی ’آدانا معاہدے‘ کے دائرہ کار میں ہے ۔‘‘
 انہوں نے مزید کہا :’’سمجھوتے کی بنیاد ہی پر شام میں ترک فوجی مانیٹرنگ چوکیوں کا قیام عمل میں آیا۔ اسد انتظامیہ نے ادلب میں ترکی کی مانیٹرنگ چوکیوں کا محاصرہ کرنا شروع کر دیا ہے جس پر  ہمارا خاموش رہنا ممکن نہیں ہے لہٰذا ہم ضروری کاروائیاں کر رہے ہیں۔‘‘
   ترک صدر ا ردگان  نے دعویٰ کیا:’’ ہم نے ایک ہفتے کے دوران علاقے میں انتظامیہ کے۲؍ ہیلی کاپٹر گرائے ہیں اور انہیں بڑے پیمانے پر جانی نقصان پہنچایا ہے ۔ انتظامیہ کیخلاف جدوجہد کرنے والے دہشت گرد نہیں  ہے۔ یہ انسان اپنی زمین اور اپنے گھروں کی حفاظت کے لئے جدوجہد کر رہے ہیںلیکن اس  پرمغرب سے کوئی ہلکی سے آواز بھی بلند نہیں ہو رہی ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK