Inquilab Logo

امریکی اور ایرانی طیارے فضا میں آمنے سامنے ، کئی ایرانی مسافر زخمی

Updated: July 25, 2020, 10:56 AM IST | Washington

ایرنی پائلٹ نے تصادم سے بچنے کیلئے جہاز کی اونچائی کو کم کیا جس کی وجہ سے مسافروں کو چوٹ آئی، طیارہ بحفاظت بیروت پہنچا۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

ایران کے ایک مسافر بردار جہاز میں سوار متعدد مسافر شام کی حدود سے گزرتے ہوئے اس دوران زخمی ہو گئے جب پائلٹ نے ایک امریکی جنگی طیارے کو دیکھ کر اپنے جہاز کی بلندی میں اچانک تبدیلی کی۔ایرانی جہاز کے پائلٹ کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اقدام دونوں جہازوں کو آپس میں ٹکرانے سے بچا نےکی لئے کیا ہے جبکہ امریکی فوج نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان کا جنگی طیارہ ایرانی جہاز سے محفوظ فاصلے پر تھا۔ اطلاع کے مطابق ایران کا مسافر بردار طیارہ ماہان ایئر کا تھا جو جمعرات کو تہران سے بیروت جا رہا تھا۔ایرانی طیارے کے پائلٹ نے امریکی ایف ۱۵؍ طیارے کو دیکھ کرمسافر طیارے کی بلندی اچانک تبدیل کی جس کے باعث جہاز میں سوار کچھ مسافر جہاز کی چھت سے ٹکرائے اور کئی افراد زخمی ہو گئے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائےگی۔ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی نے ایک مسافر کا بیان بھی جاری کیا ہے جس میں وہ بتا رہا ہے کہ جب پائلٹ نے جہاز کی بلندی میں تبدیلی کی تو کیسے اس کا سر جہاز کی چھت سے جا ٹکرایا۔
 لبنان کے دارالحکومت بیروت کے ایئرپورٹ کے سربراہ نے بتایا ہے کہ بیروت پہنچنے پر ماہان ایئرلائن کے طیارے میں سوار تمام مسافروں کو صحیح سلامت جہاز سے اتارا گیا۔ البتہ ان میں سےکچھ افراد کو چوٹیں آئی ہیں ۔ بعض رپورٹوں  میں کہا گیا ہے کہا امریکی طیارہ خود ہی ایرانی طیارے کا پیچھا کر رہا تھا۔ 
 امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایف ۱۵؍ ایئرکرافٹ ایرانی مسافر بردار طیارے کا جائزہ لے رہا تھا جب وہ شام کے علاقے الطنف میں اس کے قریب سے گزرا۔ خیال رہے کہ الطنف نامی علاقے میں امریکہ کا ایک فوجی اڈہ بھی قائم ہے۔سینٹرل کمانڈ کے ترجمان کیپٹن بل اربن نے کہا ہے کہ ان کا ایف ۱۵؍ طیارہ ماہان ایئر کے مسافر بردار جہاز کا معمول کے مطابق جائزہ لے رہا تھا اور وہ اس سے ایک ہزار میٹر کے محفوظ فاصلے پر تھا۔انہوں نے کہا کہ الطنف میں موجود اتحادی فوجوں کے تحفظ کیلئے اس علاقے سے گزرنے والے جہازوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK